سچ خبریں:شام کے صدر بشار الاسد نے آج ریاض میں عرب اور اسلامی رہنماؤں کے ہنگامی اجلاس میں کہا کہ 32 سال قبل ہونے والے اوسلو معاہدے نے فلسطینیوں کی صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔
سانا خبررساں ایجنسی کے مطابق بشار اسد نے کہا کہ مسئلہ فلسطین صرف غزہ تک محدود نہیں ہے، غزہ فلسطین کا اہم اور ضروری مسئلہ ہے اور اس قوم کے درد و کرب کی واضح علامت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ کا مسئلہ 75 سال کے صیہونی جرائم کا تسلسل ہے۔
شام کے صدر نے 1993 میں ہونے والے اوسلو معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 32 سالوں میں نہ صرف یہ معاہدہ ناکام ہوا بلکہ اس نے صیہونی حکومت کی جارحیت میں اضافہ کیا اور فلسطینی عوام کو مزید ظلم و جبر کا نشانہ بنایا۔
بشار الاسد نے یہ بھی کہا کہ اگر ہمارے پاس دباؤ کے حقیقی اوزار نہیں ہیں تو ہم جو بھی قدم اٹھاتے ہیں یا جو الفاظ کہتے ہیں ان کا کوئی مطلب نہیں ہوتا، دو ریاستی حل اور دیگر مسائل اور تفصیلات پر بات کرنا ان کی اہمیت کے باوجود ترجیح نہیں ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ الفاظ بیکار ہیں۔
بعض عرب ممالک کی خوشنودی پر احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عرب جتنے نرم ہوں گے، صہیونیوں کا ہمارے خلاف اتنا ہی تشدد اور قتل عام جاری ہے، عرب اور اسلامی ممالک کی حیثیت سے ہم جس طرح بار بار پیش آنے والے واقعات سے نمٹتے ہیں، جاری جرائم کو اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
شامی صدر نے یہ بھی کہا کہ آج فلسطینیوں کی بنیادی ضرورت انسانی امداد نہیں ہے بلکہ اب انہیں اس قتل و غارت کے خلاف مدد کی ضرورت ہے جو ان کا منتظر ہے۔
اپنی تقریر کے آخری حصے میں بشار اسد نے کہا کہ فلسطین کی بہادرانہ مزاحمت نے ہمارے خطے میں ایک نئی حقیقت مسلط کی ہے اور ہمارے اختیار میں موجود سیاسی اوزاروں سے ہم مساوات کو بدلنے کے قابل ہیں۔
آج سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض غزہ اور فلسطین کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے مشترکہ طور پر اسلامی اور عرب ممالک کے سربراہان کے ایک غیر معمولی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔