سچ خبریں:مغربی کنارے پر حالیہ غیر انسانی جارحیت کے دوران صیہونی حکومت کا جنین پر فوجی دستوں کے ساتھ زمینی اور فضائی حملوں میں وحشیانہ حملہ علاقائی اور حتیٰ کہ بین الاقوامی میڈیا کی پہلی خبر بن گیا ۔
ماحول تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صہیونی کارروائی میں 12 فلسطینی شہید اور 140 افراد زخمی ہوئے جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ صیہونیوں نے سوشل نیٹ ورکس اور بین الاقوامی میڈیا یہاں تک کہ مغربی میڈیا کے سامنے فوجی آپریشن شروع کیا، جس کی اس حکومت کو بہت زیادہ سیاسی قیمت ادا کرنی پڑی، جبکہ اس سے زیادہ سیاسی کامیابی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اس پیش رفت کے ساتھ ہی اسلامی اور عرب ممالک نے صیہونی حکومت کے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس حملے کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے جو کہ ایک وسیع پیمانے پر مذمت ہے، جب کہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا سب سے اہم خواب بن گیا ہے۔ یقیناً اس دوران امریکہ نے صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کی پہلے کی طرح حمایت کی تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ بنجمن نیتن یاہو کے جو بائیڈن کے ساتھ تعلقات کے سرد دنوں میں بھی تل ابیب اور واشنگٹن کے درمیان سٹریٹجک شراکت داری اٹوٹ ہے۔
تاہم تنازعے کی تازہ ترین صورت حال اور اس صہیونی حملے کی مذمت سے قطع نظر، اہم نکتہ مغربی کنارے میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے صہیونیوں کی حکمت عملی کو تبدیل کرنا ہے جس کی تل ابیب کو بڑی سیاسی قیمت چکانی پڑی ہے۔ مغربی کنارے کی موجودہ صورتحال جسے صیہونی حکومت کے خلاف اس علاقے کے عوام کی بکھری ہوئی مسلح انتفاضہ کہا جا سکتا ہے صہیونیوں نے بہت پہلے ہی بنک کے ساتھ ڈیل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی، حالانکہ اس علاقے کی سیکورٹی بنیادی طور پر فلسطینی اتھارٹی کو سونپی گئی تھی۔
اس لیے صیہونیوں نے بڑے پیمانے پر آپریشن کے ذریعے جنین کو مغربی کنارے میں مزاحمت کے ایک اہم مرکز کے طور پر داخل کرنے اور عالمی رائے عامہ کے سامنے اپنی سیاسی اور بین الاقوامی ساکھ کو نیلام کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ہوا جب کم از کم حالیہ کرنٹ میں جینن پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ مزاحمت اسرائیل کے لیے بہت سے حیرت کا باعث ہوگی۔