سچ خبریں: حزب اللہ کے اینٹی آرمر میزائل یونٹ کے کمانڈر اور لبنانی عسکری امور کے تجزیہ کار نے حزب اللہ کے میزائل یونٹ اور موجودہ ہتھیاروں کی تفصیلات کا انکشاف کیا۔
المیادین نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کی اینٹی آرمر میزائل یونٹ لبنان میں اسلامی مزاحمت کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ہے جس نے موجودہ تنازعات میں اس تحریک کے حق میں میدان تیار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حزب اللہ نے ابھی صرف اپنی 5 فیصد طاقت دکھائی ہے
8 اکتوبر کو حزب اللہ اور صیہونی حکومت کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے آغاز کے ساتھ ہی حزب اللہ کے ہتھیاروں کے خلاف صیہونیوں کی مختلف سیاسی اور عسکری ذرائع ابلاغ کی سطحوں پر تشویش میں اضافہ ہوا اور انہیں یہ تشویش لاحق ہوئی کہ لبنان کی اسلامی مزاحمت اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گی اس لیے کہ اس میدان میں پہلے سے زیادہ وسعت آئی ہے۔
حزب اللہ کے اینٹی آرمر میزائل یونٹ کے ایک کمانڈر نے المیادین کے ساتھ انٹرویو میں تاکید کی کہ لبنان کی اسلامی مزاحمت کی بہت سی خصوصیات ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا اپنا خاص فریم ورک ہے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حالیہ کارروائیوں میں اور کارروائیوں کی نوعیت کے نتیجے میں اینٹی آرمر میزائل بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، بلاشبہ ان کارروائیوں میں بعض خصوصیات اور دیگر شاخیں بھی جزوی طور پر موجود ہیں لیکن حزب اللہ کی میزائل یونٹس دوسروں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہیں اور اس کی وجہ سے قبضہ کرنے والے اپنی آنکھوں سے ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جس کی انہیں توقع نہیں تھی۔
حزب اللہ کے اس فوجی کمانڈر نے اس بات پر زور دیا کہ اینٹی آرمر میزائلوں کی خصوصیات انہیں لچکدار، موثر اور ساتھ ہی ساتھ آپریشن کرنے میں آسان بناتی ہیں اور یہ خصوصیات انہیں خطرات اور دشمن کے باران میزائل کے خلاف استعمال میں آسان بناتی ہیں۔
اس مزاحمتی فیلڈ کمانڈر کے مطابق، حزب اللہ کے اینٹی آرمر میزائلوں کی وجہ سے حملہ آوروں کو ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے استعمال میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان میزائلوں نے صہیونی دشمن کے تمام اہداف کے خلاف نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔
لبنان کے سیاسی امور کے تجزیہ کار عباس فنیش نے المیادین کے ساتھ گفتگو میں صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی کارروائی کی طرف اشارہ کیا اور تاکید کی کہ پہلے دو ہفتوں کے دوران صیہونی اہداف مکمل طور پر شیل سطح پر تھے اور مزاحمتی گروہوں نے صہیونی ٹینکوں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ نے مقبوضہ علاقوں میں مزید اندر تک رسائی حاصل کی اور ان کے متعدد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، میدان میں ہونے والی پیش رفت سے اینٹی آرمر میزائل کی تاثیر ظاہر ہوتی ہے اور اس مسئلے کو تباہ شدہ ٹینکوں اور ان مقامات سے دیکھا جا سکتا ہے جہاں صہیونی فوجی مارے گئے ۔
المیادین نے مزید حزب اللہ کی صیہونی مخالف کارروائیوں کے انٹرسیپٹر یا ڈائریکٹ ہتھیاروں کے ساتھ اعداد و شمار فراہم کیے اور لکھا کہ انٹرسیپٹر ہتھیاروں کے ساتھ کارروائیوں کی تعداد تقریباً 469 تھی جبکہ 105 حملے براہ راست ہتھیاروں سے کیے گئے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 87 حملے ایسے ہتھیاروں سے کیے گئے جنہیں اسلامی مزاحمت نے ظاہر نہیں کیا تھا، جن میں سے 82 انٹرسیپٹر میزائل اور باقی 5 براہ راست میزائل حملے تھے۔
اس گفتگو میں حزب اللہ کے فوجی کمانڈر نے اس بات پر زور دیا کہ اس جنگ میں حزب اللہ کی حیرت انگریزیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اسلحہ مخالف گولہ بارود حزب اللہ کا واحد ہتھیار نہیں ہے۔ آج دشمن کے ساتھ تصادم، قلعہ بندیوں اور قابض فوج کو مختلف ہتھیاروں کے استعمال کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے پاس ایسے میزائل ہیں جو گھروں کو تباہ کرنے اور ان میں گھسنے اور اندر موجود لوگوں کو مارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہ میزائل تھرموبارک میزائل ہیں۔
اس حوالے سے عباس فنیش نے کہا کہ اسلامی مزاحمت نے ان تنازعات میں تین نئی قسم کے میزائل متعارف کرائے ہیں،پہلی قسم تھرموبارک میزائل ہیں جن کی رینج 8 کلومیٹر ہے ،دوسری قسم تھر اللہ میزائل اور تیسری قسم اسپیشل انٹرسیپٹر میزائل ہیں۔
سیاسی اور عسکری امور کے تجزیہ کار فنیش نے اس بارے میں مزید کہتے ہوئے کہ کس طرح خطے میں مزاحمتی قوتوں نے اینٹی آرمر میزائل الماس تیار کرنے کی ٹیکنالوجی حاصل کی اور کہا کہ صیہونی حکومت کے گل اسپائک میزائلوں کا ایک حصہ انہیں دیا گیا۔
مزید پڑھیں: حزب اللہ کے میزائل کہاں تک پہنچ سکتے ہیں؟ سید حسن نصراللہ کی زبانی
انہوں نے کہا کہ ماضی کے تنازعات کے نتیجے میں مزاحمتی گروہوں کو جنگی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور ان گروہوں نے ان ہتھیاروں کو کسی تیسرے ملک میں ریورس انجینئرنگ کے لیے بھیجا اور اس طرح حزب اللہ کو الماس میزائلوں تک رسائی حاصل ہوئی۔