سچ خبریں : جیسا کہ فرانس میں اسلام و فوبیا جاری تھا ملک کی تین مساجد کی دیواروں پر صلیب کی تصاویر اور اسلام مخالف نعرے لٹکا دیے گئے۔
اناطولیہ کی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ترکی کی سب سے بڑی مسلم تنظیم ترکی کی یونین برائے مذہبی امور (DITIB) سے منسلک مساجد کی دیواریں مونٹیل بن پونٹرلی اور روبے کے صوبوں میں سنیچر کی دیر رات گرا دی گئیں۔
یونین نے ایک بیان میں کہا کہ ہم اپنی مساجد پر ہونے والے بدصورت حملے کی مذمت کرتے ہیں اور اپنی کمیونٹی کے لیے اچھی صحت کی خواہش کرتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم ملک میں امن کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کے خلاف اتحاد کا مطالبہ کرتے ہیں ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ ایسے اشتعال انگیز واقعات سے محتاط رہیں۔
فرانس کی قومی اسمبلی پہلے ہی ایک متنازعہ اسلام مخالف بل منظور کر چکی ہے جسے ایمینوئل میکرون کی حکومت فرانس کی سیکولر بنیادوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری سمجھتی ہے فرانسیسی قومی اسمبلی، یا پارلیمنٹ کے ایوان زیریں جو کہ ملک کی دو پارلیمانوں میں سے ایک ہے نے بائیں بازو اور دائیں بازو کے ارکان پارلیمنٹ کی مخالفت کے باوجود اس منصوبے کی منظوری دے دی۔
فرانسیسی حکومت پہلے کہہ چکی ہے کہ ملک کی سیکولر بنیادوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس منصوبے کی منظوری ضروری ہے لیکن اس منصوبے کے مخالفین اسے مذہبی آزادی کے منافی سمجھتے ہیں۔
فرانسیسی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس بل کا مقصد اسلامی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا ہے، لیکن فرانسیسی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون ان کی مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اور انہیں غیر منصفانہ طور پر نشانہ بناتا ہے۔
اس سے قبل فرانسیسی پارلیمنٹ کے ارکان نے ایک ایسا قانون منظور کیا تھا جو اسلام اور مسلم دشمنی پر مبنی ہے فرانسیسی ایوان زیریں نے یہ بل 151 کے مقابلے 347 ووٹوں سے منظور کیا۔
70 نکاتی قانون کے تحت فرانسیسی حکومت کو مذہبی اسکولوں اور عبادت گاہوں کو بند کرنے اور لیکچرز کو روکنے کی اجازت ہے جنہیں فرانسیسی حکومت انتہا پسند سمجھتی ہے۔
نئے قانون کے تحت وہ خواتین جو اپنے بچوں کے ساتھ سکول کیمپوں میں جاتی ہیں ان کے حجاب پہننے پر پابندی ہے نیز حجاب والی خواتین اپنے بچوں کو دیکھنے کے لیے اسکول یا کنڈرگارٹن میں داخل نہیں ہو سکتیں۔