سچ خبریں:موساد کے سابق سربراہ شبطائی شاویت نے معاریو اخبار کی طرف سے شائع ہونے والے ایک نوٹ میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کی غزہ کی پٹی کے ساتھ گزشتہ 20 سالوں میں 18 جنگیں ہو چکی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان تنازعات میں کون سا اسٹریٹجک مقصد حاصل کیا گیا؟
اس سلسلے میں انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے بارے میں صرف ایک ہی بات کہی جا سکتی ہے کہ تقسیم اور فتح کے نظریہ کا ادراک ہو، جو کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے درمیان قطری فنڈز کی مغربی کنارے کو مختص کرنے کے ذریعے انجام دیا گیا ہے۔ اور غزہ کی پٹی جو کہ نیتن یاہو کے مطابق ہم ان دو خطوں میں تقسیم اور تفریق کرکے فلسطینی ریاست کی تشکیل کو روکیں گے، پھر بھی اس نظریے کے مالک نیتن یاہو اس کھیل کے خاتمے سے کیا چاہتے ہیں اس کا جواب نہیں دیتے؟ بہر حال، جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پیچھے ایک طوفان ہے۔
شاویت نے مزید لکھا کہ اسرائیل کو اس حکمت عملی کے لیے کیا قیمت چکانی پڑ رہی ہے؟
موساد کے سابق سربراہ کے مطابق آج غزہ کی پٹی کے اردگرد رہنے والے تارکین وطن نیتن یاہو کی آہنی دیوار ہیں، جنہوں نے جانی و مالی نقصانات اٹھائے ہیں اور اپنا معیار زندگی کھو چکے ہیں، لہٰذا یہ حقیقت اس سلسلے میں ادا کی جانے والی پہلی قیمت ہے۔
صیہونی حکومت کے اس سابق سیکیورٹی جنرل کے مطابق نیتن یاہو نے اپنی پالیسیوں سے حماس کو محمود عباس کے اقتدار کا وارث مقرر کیا ہے۔عباس کے ساتھ امن کی بات تو ممکن ہے لیکن حماس کے ساتھ جنگ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔