سچ خبریں:عبرانی زبان کے اخبار Haaretz نے اس حوالے سے ایک تجزیے میں اعتراف کیا کہ اس جنگ نے ثابت کر دیا کہ غزہ میں فلسطینی شہری کس طرح ایسی پالیسیوں کے اسیر ہیں جن کا ان کے مستقبل سےکوئی افق نہیں ہے۔
اس نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے اس میڈیا نے مزید کہا کہ اس جنگ نے ایک بار پھر اس نظریے پر زور دیا کہ مسلسل تشدد کا یہ شیطانی دائرہ اسرائیل کے لیے مثالی منظر نامہ ہے۔
ہارٹز مزید صیہونی حکومت کے غزہ کی پٹی میں زمینی داخلے کے خوف کے واضح اعتراف کے ساتھ لکھتے ہیں کہ نہ اسرائیل، نہ عرب ممالک، اور نہ ہی امریکی حکومت، نہ ڈیموکریٹس اور نہ ہی ریپبلکن، غزہ کی پٹی پر حملہکے سلسلے میں فیصلہ کن اور مکمل طور پر تلاش کر رہے ہیں۔ ، اسرائیل نہیں چاہتا کہ اس کے ٹینک غزہ میں داخل ہوں، اس پر قبضہ کر لیں اور یہ علاقہ خود مختار تنظیموں کو واپس کر دیں۔
اس اخبار کے عسکری امور کے تجزیہ کار آموس ہریئل نے اپنے ایک نوٹ میں جو آج شائع ہوا ہے تاکید کی ہے کہ اسرائیل کو آپریشن سے دستبردار ہونے اور اسے دوسری طرف ختم کرنے کی حکمت عملی وضع کرنے میں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس بار وہ اس قابل نہیں رہا۔
اس سلسلے میں انہوں نے مزید کہا کہ یہ کہنا ضروری ہے کہ جنگ بندی کی کنجی اسرائیل کے ہاتھ میں نہیں تھی۔
اس سلسلے میں اس صہیونی تجزیہ نگار نے مزید کہا کہ شاید جہاد نے گزشتہ سال اگست میں 3 دن تک جاری رہنے والے تنازعات سے سبق حاصل کیا ہے، کیونکہ اس تنظیم نے کوشش کی کہ تنازعہ کو زیادہ دیر تک جاری رکھا جائے۔ اسرائیلی فوج کا لڑنا اور مزاحمت جاری رکھنا اپنے آپ میں ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل میں فیصلہ سازی کے مراکز نے مصر کی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ عباس کمال کے اسلامی جہاد کے سکریٹری جنرل زیاد النخالہ کے ساتھ مضبوط تعلقات پر بہت زیادہ اعتماد کیا تھا، لیکن اس سے یہ تعلقات قائم نہیں ہو سکے۔
اسرائیل ٹائمز اخبار نے بھی جنگ بندی کے حوالے سے اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کے جواز کی عکاسی کرنے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ تل ابیب نے اس جنگ بندی میں صیہونی حکومت سے فتح کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔
تاہم صیہونی ٹی وی چینل 13 کے رپورٹر تسیفی یحزقیلی کے مطابق اس جنگ میں اسرائیل کی فوجی برتری کے باوجود یہ جنگ اسرائیل کے لیے زیادہ کامیابی نہیں لا سکی ہے کیونکہ یہ غزہ کی پٹی کی حقیقت اور حالات میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکی۔