سچ خبریں:کہا جاتا ہے کہ صہیونی حکومت کے وزیر اعظم کی پیش کی جانے والی تجویز ، جس پر بائیڈن کے ساتھ اس ہفتے بات چیت کی جائے گی، میں ایٹمی معاہدے میں واپس آنے کی ضرورت کے بغیر ایران کو روکنا شامل ہے۔
اس سے قبل صہیونی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت کے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ اس ہفتے ایران مخالف ایک نئے منصوبے کے ساتھ وائٹ ہاؤس جانے والے ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ایران کو جوہری فرار کے مقام تک پہنچنے سے روکے گا،تاہم اب ٹائمز آف اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس منصوبے میں ایک ایسی حکمت عملی شامل ہے جو امریکہ کی آئی اے ای اے میں واپسی کی ضرورت کو ختم کرتی ہے اور اس کے باجود ایران کے جوہری پروگرام اور علاقائی سرگرمیوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
صہیونی حکومت کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیاکہ جب ہم نے اس منصوبے پر بحث شروع کی تو 2015 کے ایٹمی معاہدے کی واپسی ناگزیر معلوم ہوتی تھی لیکن اب وقت گزرنے اور ایرانی حکومت کی تبدیلی کے ساتھ یہ مسئلہ بہت کم یقینی ہے اور ہماری رائے میں یہ بھی ممکن ہے کہ ایٹمی معاہدے میں واپس نہ جائیں، ذرائع نے دعویٰ کیاکہ معاہدے میں واپس آنا اب مفید نہیں ہے۔
واضح رہے کہ بینیٹ رواں ہفتے منگل کو واشنگٹن کا سفر کرنے والے ہیں جہاں وہ جمعرات کو بائیڈن کے ساتھ ملاقات کریں گے،اس سے قبل انہوں نے دعویٰ کیاتھا کہ ہم ایک اعلی توجہ اور شراکت داری کے نقطہ نظر کے ساتھ وائٹ ہاؤس جا رہے ہیں، ایک نقطہ نظر جس کا مقصد خطے میں عدم استحکام اور دہشت گردی جیسے ایران کے منفی اقدامات کو روکنا ہے نیز ایران کو ایک ایٹمی طاقت بننے سے بھی روکنا ہے۔
اس سے قبل ایران کے لیے امریکی خصوصی نمائندے رابرٹ مالی نے جوہری معاہدے کی صورتحال کو بڑا سوالیہ نشان قرار دیا اور ویانا مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں امریکی کاروائی کے دو ممکنہ اختیارات کی بات کی، ان کے مطابق ایک تجویز یہ ہے کہ واشنگٹن اور تہران مکمل طور پر ایک علیحدہ معاہدے پر دستخط کریں گے جس کے موجودہ معاہدے سے مختلف پیرامیٹرز ہوں گے،دوسرا معاملہ یورپی اتحادیوں کے تعاون سے سزا دینے والے اقدامات کا ایک سلسلہ ہے۔