سچ خبریں:سی آئی اے کے ایک قیدی نے پہلی بارباضابطہ طور پر تنظیم کے حراستی مراکز میں ہونے والی ہراسانی کو بیان کیا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد امریکی شہری مجید خان پہلی بار فوجی عدالت میں پیش ہوئے تاکہ سی آئی اے کے بدنام زمانہ حراستی مراکز میں ظلم و ستم کے تجربے کی باقاعدہ وضاحت کرسکیں،رپورٹ کے مطابق مجید خان جو القاعدہ دہشت گرد گروپ میں شامل ہونے سے پہلےامریکی شہر بالٹی مور کے مضافات میں رہتے تھے، نے جمعرات کو ایک فوجی عدالت کو بتایا کہ انہیں 2003 اور 2006 کے درمیان بدنام زمانہ سی آئی اے کی جیلوں میں رکھا گیا تھا جہاں انھیں بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا جس میں پانی میں ڈبونا، جسمانی اور جنسی استحصال نیز سفاکانہ انداز میں کھانا کھانے پر مجبور کیا جانا شامل ہے۔
واضح رہے کہ مجید خان سی آئی اے کے پہلے قیدی ہیں جنہوں نے سی آئی اے کے ہاتھوں اعترافی بیان لینے کے لیے استعمال کی جانے والی جدید تفتیشی تکنیک” کے بارے میں عوام کے سامنے بات کی، انھوں نے تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے والی عدالتی سماعت کے دوران بتایاکہ انھیں کال کوٹھری جیسی جگہ پر برہنہ رکھا جاتا تھا جہاں ان کے سر پر صرف ایک تھیلا ہوتا تھااور بعض اوقات ان کے ہاتھ زنجیروں سےاس طرح جکڑے جاتے تھے کہ وہ سو نہیں سکتے تھے۔
مجید خان نے اذیت کی ایک شکل یہ بھی بیان کی کہ انہیں انتہائی ٹھنڈے پانی میں آدھا ڈبو کر رکھا گیاجہاں ان کی ناک اور منہ سے دو پائپ جڑے ہوئے تھے اور پوچھنے والے کے دس سے ایک تک گننے کے بعد ان کے منہ اور ناک میں پانی ڈالا جاتا تھا۔
گوانتانامو کے سابق قیدی نے عدالت کو بتایا کہ 2003 میں پاکستان میں اپنی گرفتاری کے فوراً بعد انھوں نے اس امید پراپنے علم میں موجود ہر چیز کا اعتراف کیا کہ قید کرنے والو ں کے ساتھ تعاون کریں گے کہ انھیں رہا کر دیا جائے گا،تاہم انھوں نے کہا کہ میں نے جتنا زیادہ تعاون کیا مجھے اتنا ہی زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
یادرہے کہ خان کو آج (جمعہ) عدالت میں 25 سے 40 سال قید کی سزا سنائے جانے کا امکان ہے، جس کا ایک حصہ وہ 2012 سے بھگت رہے ہیں، تاہم فوجی کمیشن کے مطابق یہ سزا علامتی ہے اور حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر سزا میں کمی ہو سکتی ہے۔