سچ خبریں: حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی حالیہ تقریر کا ایک اہم موضوع یہ تھا کہ صہیونی دشمن نے جنگی جرائم کے ارتکاب کے باوجود غزہ کی جنگ میں کوئی فوجی فائدہ نہیں اٹھایا۔
غزہ جنگ کے بارے میں سید حسن نصر اللہ کا دوسرا خطاب یوم شہدا کے موقع پر کیا گیا، اس تقریر میں غزہ جنگ کے میدانی منظر کے بارے میں اہم نکات ہیں جن کا تجزیہ اس کالم میں کیا گیا ہے۔
1۔ صیہونی حکومت نے اب تک کچھ حاصل نہیں کیا
سید حسن نصر اللہ کی تقریر میں پہلا نکتہ یہ تھا کہ صیہونی حکومت نے غزہ کے خلاف جنگ میں کچھ حاصل نہیں کیا،غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو 37 دن گزر چکے ہیں، اس جنگ میں صیہونی حکومت کے اہم ترین فوجی اہداف قیدیوں کو رہا کرنا، حماس کو تباہ کرنا اور اپنے انٹیلی جنس اور فوجی اعتبار کو بحال کرنا تھا، گزشتہ 37 روز گزرنے کے بعد بھی قیدیوں کو رہا نہیں کیا گیا اور نیتن یاہو کی کابینہ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی میں ناکامی کے خلاف مقبوضہ علاقوں میں نئے مظاہرے کیے جا رہے ہیں، حماس نہ صرف تباہ نہیں ہوئی ہے بلکہ صیہونیوں کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے نیز صیہونیوں کی ہلاکتووں کا سلسلہ جاری ہے جس سے نہ صرف قابض حکومت کا انٹیلی جنس اور فوجی اعتبار بحال نہیں ہوا ہے بلکہ مقبوضہ علاقوں میں سکیورٹی کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سید حسن نصراللہ کی سفارتی معقولیت
لبنان کی سرحد کے قریب واقع 14 قصبوں کے مکین ابھی تک واپس نہیں آئے ہیں اور یہ قصبے حزب اللہ کے حملوں کے خوف سے ویران ہیں،غزہ کے ارد گرد صہیونی بستیوں کا بھی یہی حال ہے۔ تھامس فریڈمین نے ایک کالم میں لکھا کہ7 اکتوبر کے بعد کا اسرائیل پہلے کا اسرائیل نہیں رہا،اسرائیل اب ایک ایسی جگہ بن گیا ہے جہاں اس کے باشندے پہلے کبھی نہیں رہے تھے۔ ایک ایسی جگہ جس کی حفاظت اسرائیلی جرنیلوں کو کبھی نہیں کرنی پڑی اور امریکہ جیسے اتحادی کو اس سے پہلے کبھی براہ راست مداخلت اور دفاع نہیں کرنا پڑا،اسی مناسبت سے سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ آج اسرائیل نے اپنی مضبوط ترین بریگیڈ غزہ بھیجی ہے جو ان کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ انہوں نے کچھ حاصل نہیں کیا ہے۔
2. میدان بولتا ہے
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اپنے سامعین سے خطاب کرتے ہوئے ایک اہم اور اسٹریٹجک نکتے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اپنی نظریں تقریروں پر نہیں بلکہ میدان پر رکھیں، میدان ہی کام کرتا ہے، میدان بولتا ہے ،اس جملے کو سید حسن نصر اللہ کی تقریر کا سب سے اہم حصہ کہا جا سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل اور عمومی طور پر مزاحمت کو صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنے کے لیے سفارت کاری کی کوئی امید نہیں ہے۔
یہ اہم تقریر ایسے وقت میں ہوئی جب سعودی عرب میں اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس جاری تھا ،انہوں نے غزہ کی موجودہ تباہی کے حوالے سے عرب ممالک اور بعض اسلامی ممالک کے موقف پر تنقید بھی کی، سفارت کاری کی ناکامی کے بارے میں حزب اللہ کے سکرٹری جنرل کا خیال ہے کہ اس جنگ کا فیصلہ میدان میں کیا جائے گا، اس جنگ میں حماس اور فلسطین کے دیگر مزاحمتی گروپوں کے علاوہ حزب اللہ، یمنی فوج، عراقی اور شامی مزاحمتی تنظیمیں بھی شامل ہیں،فلسطینی، یمنی اور حزب اللہ صیہونی حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں اور عراق اور شام کی مزاحمتی قوتیں بھی امریکہ کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں،غزہ کا میدان جنگ مزاحمت کی فتوحات کا منظر ہو گا اور سید حسن نصر اللہ کے بقول مزاحمت کے پاس جنگی حکمت عملیوں میں جدت اور تخلیقی صلاحیت ہے اور آج وہ فیصلہ کن صورتحال سے دوچار ہے۔
3. وقت گزرنا صہیونیوں کے حق میں نہیں ہے
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کی تقریر میں ایک اور اہم نکتہ یہ تھا کہ وقت کا گزرنا اور جنگ کا طویل ہونا صہیونیوں کے مفاد میں نہیں ہے، حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ وقت کا گذرنا اسرائیل کے حق میں نہیں ہے،مزاحمتی کیمپ میں شکست کی کوئی جگہ نہیں ہے لیکن شکست صہیونی دشمن ہوگی،جتنا وقت گذرتا جائے گا صہیونیوں کی ناکامی اتنی ہی یقینی ہوتی جائے گی، اس تناظر میں پانچ بنیادی وجوہات ہیں جو سید حسن نصر اللہ کی تقریر میں بھی موجود تھیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ؛ صیہونی حکومت نے اب تک فوجی میدان میں کچھ حاصل نہیں کیا ہے،مستقبل میں وسیع پیمانے پر جنگ چھڑنے کا امکان ہے،اس تناظر میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ امریکہ مزاحمتی گروہوں کو خاموش کرنے کے قابل نہیں ہے… حزب اللہ کی فوجی کارروائیوں میں مقدار اور معیار کے لحاظ سے اضافہ ہوا ہے،حزب اللہ نے پہلی بار حملہ آور ڈرون اور برکان راکٹ استعمال کیے ہیں جن میں 300 سے 500 کلو گرام دھماکہ خیز مواد ہوتا ہے،اسرائیلی اپنے مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد چھپاتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت اس جنگ میں اب تک عالمی رائے عامہ کو کھو چکی ہے ، وسیع پیمانے پر تباہی اور ہسپتالوں، رہائشی علاقوں، پناہ گزینوں کے کیمپوں اور 11000 سے زائد افراد کی شہادت، جن میں 70% بچے اور خواتین ہیں، نے القدس کی غاصب حکومت کے خلاف عالمی رائے عامہ کو متحرک کیا،اس حکومت کا مجرمانہ چہرہ دنیا کے لوگوں کے سامنے آ گیا ہے اور جنگ کا جاری رہنا اس حکومت کے خلاف دنیا کے تمام ممالک میں عوامی تحریک کی تشکیل کا باعث بنے گا،حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اس تناظر میں کہا کہ صیہونی گزشتہ 20 سالوں سے بین الاقوامی اور عرب میڈیا میں اسرائیل اور اس کے رہنماؤں اور اسرائیلی آباد کاروں کی اچھی اور واضح تصویر دکھانے اور انہیں پرامن لوگوں کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ تمام کوششیں ضائع ہو گئیں۔
تیسری اور چوتھی وجوہات کا تعلق بھی مقبوضہ زمینوں کے اندرونی منظر سے ہے،ایک طرف، نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف آباد کاروں کی نقل مکانی کا دباؤ زیادہ ہے اور جنگ جاری رہنے کی وجہ سے مزید لوگ بے گھر ہوں گے،متعدد اطلاعات کے مطابق تقریباً 400000 آباد کاروں نے بھی مقبوضہ زمینیں چھوڑ دی ہیں،دوسری جانب نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف قیدیوں کے اہل خانہ کا دباؤ برقرار رہے گا۔
یہ خاندان اپنے اسیروں کی رہائی کی درخواست کرتے ہیں لیکن میدان جنگ نے غزہ پر وسیع بمباری سے ظاہر کیا کہ یہ اسیران نہ صرف آزاد ہوں گے بلکہ صیہونی حکومت کی بمباری سے ہلاک بھی ہو سکتے ہیں،آخر کار صیہونی حکومت پر اقتصادی دباؤ بڑھے گا۔،متعدد اطلاعات کے مطابق جنگ کے پہلے مہینے میں صیہونی حکومت کو تقریباً 15 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا اور جنگ جاری رہنے سے اس میں اضافہ ہو سکتا ہے، یہ بات قابل غور ہے کہ آباد کاروں کا دباؤ، قیدیوں کے اہل خانہ اور معاشی مسائل نیتن یاہو کی انتہاپسند کابینہ کے خلاف کئی لاکھ لوگوں کے مظاہروں کو دوبارہ شروع کرنے یہاں تک کہ کابینہ کے خاتمے کی بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: خطہ کی موجودہ صورتحال کے بارے میں سید حسن نصراللہ کا اہم ترین جملہ
نتیجہ
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی حالیہ تقریر جو غزہ جنگ کے بارے میں ان کی دوسری تقریر تھی، اس حقیقت پر مشتمل تھی کہ اول تو صیہونی حکومت کو غزہ کے عوام کے قتل عام کے علاوہ کوئی فوجی کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور دوسری بات یہ کہ وہ اس جنگ کی مساوات کوجانتے ہیں اورتیسرے یہ کہ جنگ کا جاری رہنا صہیونیوں کے مفاد میں نہیں ہے اور دشمن کو شکست ہوگی۔