سچ خبریں:نیوز ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ سعودی عدالت نے ایک سعودی سماجی کارکن کے خلاف 6 سال قید اور سفری پابندی پر مبنی اپیل کو برقرار رکھا ہے۔
رائے الاخر اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سعودی اپیل کورٹ نے سعودی کارکن محمد الربیعه کے خلاف چھ سال قید کی ناجائز سزا کو برقرار رکھا ہےجبکہ اس سے قبل ، سعودی عرب کی خصوصی فوجداری عدالت نے الربیعه کو چھ سال قید اور چھ سال کی سفری پابندی کی سزا سنائی تھی۔
واضح رہے کہ محمد الربیعه ایک سعودی انسانی حقوق کے محافظ ہیں جنہیں سعودی حکام نے مئی 2018 میں ایک حراستی مہم کے دوران گرفتار کیا تھا جس نے انسانی حقوق کے کئی محافظوں کو نشانہ بنایا تھا۔
یادرہے کہ اس وقت گرفتاری مہم کے دوران محمد الربیعه ، ابراہیم المدیمیغ ، لجین الہزلول ، عزیزہ الیوسف اور ایمان النفجان کو گرفتار کیا گیا تھاجس کے بعدمحمد الربیعه کو سعودی سکیورٹی فورسز نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور علاج ، وزٹ اور وکیل سےملنے سے منع کر دیا۔
یادرہے کہ اس سے قبل انسانی حقوق کی تنظیم القسط نے ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ سعودی حکام نے محمد الربیعه کو الیکٹرانک شاک سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا نیز انھیں الٹا لٹکایا گیا اور زد وکوب بھی کیا گیا۔
القسط ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے مزید کہا کہ جیل میں طویل عرصے تک تشدد کے بعد محمد الربیعه پر سعودی فوجداری عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جس میں سعودی اٹارنی جنرل نے ان کی پرامن سرگرمیوں سے متعلق الزامات کے تحت 25 سال قید کی درخواست کی۔
واضح رہے کہ ڈسک میں مبتلا ہونے کے باوجود محمد الربیعه کو شدید مارا گیا، سعودی کارکن کو کئی دنوں تک ایک چھوٹی سی کوٹھری میں رکھا گیا نیز انھیں بیٹھنے یا سونے کی اجازت نہیں دی گئی نیز انھیں الٹا لٹکا کر گھونسے مارےگئے اور بےہوش کیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ سعودی عہدیداروں نے انھیں مسلسل کھانے کی خالی ٹرے سے اذیت دی اور ایک سال تک انھیں بھوکا رکھا ، انھیں میٹنگ روم میں صرف اسوقت کھانا کھانے کی اجازت دی جب وہ اپنے خاندان کے ساتھ ملاقات کرتے تھے۔