سچ خبریں: ایک امریکی میگزین نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں غزہ پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملے کے دوران پیش آنے والے واقعات کی تحقیق کرتے ہوئے ان مسائل پر توجہ دی ہے جو اس حملے کے بعد صیہونی حکومت کو پریشان کر رہے ہیں۔
امریکی جریدے فارن پالیسی نے اپنی ایک رپورٹ میں جنین پر حملے میں صیہونی حکومت کے لیے 4 پریشان کن حقائق کا جائزہ لیا ہے، کارنیگی انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل پیس کے سینئر محقق آرون ڈیوڈ ملر نے اس امریکن میگزین میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں یہ مسئلہ اٹھایا ہے، اس کالم کے مطابق جنین پر حملے کے بعد صیہونی حکومت کو جن پریشان کن حقائق کا سامنا کرنا پڑا وہ یہ ہیں:
1۔ فلسطینی اتھارٹی ہو یا نہ ہو، تل ابیب کی کوئی سکیورٹی نہیں۔
2. مسلح مزاحمت کو سرمائے کی ضرورت نہیں ۔
3. اسرائیل کے پاس کوئی سیاسی حکمت عملی نہیں ۔
4. حالات دن بدن خراب ہوتے جائیں گے۔
مزید پڑھیں:فلسطینی مجاہدین میں جنین میں کیسے صیہونیوں کی ہوا نکال دی
پہلی حقیقت کے بارے میں، ملر نے لکھا کہ صیہونی حکومت کو مغربی کنارے کے شمالی شہروں بالخصوص نابلس اور جنین میں پچھلے دو سالوں میں بار بار پیش آنے والے مسائل کا سامنا ہے جن میں ایک مسئلہ ایسے منظم مسلح گروہوں کا منظرعام پر آنا ہے جنہیں صہیونی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے حماس اور اسلامی جہاد کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنین میں فلسطینی اتھارٹی اور فتح تحریک کا متوقع اثر و رسوخ بہت کم ہو گیا ہے نیز اسرائیل کے حملے خاص طور پر مارچ 2022 کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے اثر و رسوخ میں کمی اور حماس اور اسلامی جہاد کے اثر و رسوخ میں اضافے کا سبب بنے۔
اس تجزیہ کار نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی تباہی کے ساتھ، اسرائیل کو ایک ناگوار آپشن کا سامنا کرنا پڑے گا ،یا تو اسے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں جو فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول سے باہر ہیں میں مزید تحفظ فراہم کرنا ہوگا یا پھر حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کے خالی عہدوں پر بھرتی ہونے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا مشاہدہ کرنا ہوگا،نتیجے کے طور پر اسرائیل کے پاس واحد آپشن مغربی کنارے کے بڑے حصوں پر دوبارہ قبضہ کرنا ہے، یہ مسئلہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے فلسطینی باشندوں کے ساتھ بات چیت کرنے پر مجبور کرتا ہے ورنہ اسے ان علاقوں میں بدامنی کا انتظار کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: جنین آپریشن میں استقامتی تحریک کا انوکھا انداز
دوسری حقیقت کے بارے میں اپنے کالم ملر نے لکھا کہ اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ جنین نے گزشتہ دو سالوں میں 50 مسلح کاروائیاں کی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ مزاحمتی کاروائیوں کا مرکز بن چکا ہے،اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج کے ملٹری انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ تمیر ہیمان نے کہا کہ مسلح مزاحمتی کاروائیوں کو سرمائے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس ممتاز تجزیہ نگار نے کہا کہ صیہونی حکومت کی مزاحمتی کاروائیوں سے تصادم فلسطینیوں میں غصے اور بیزاری میں اضافہ نیز شہداء کی تعداد اور بہادرانہ جدوجہد میں اضافہ کا باعث بنے جو بلاشبہ مزید تشدد اور مزاحمت کا باعث ہوگا۔
انہوں نے اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ ان فلسطینی جوانوں کی تعداد جو اپنے وصیتناموں میں شہادت کا خیرمقدم کرتے ہیں اور دوسرے فلسطینیوں کو صیہونی حکومت کے خلاف لڑنے کی ترغیب دلاتے ہیں جس کے باعث ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ، کہا کہ اسرائیل بہت زیادہ خوف ہے کہ جنین میں موجود مزاحمت کے جذبے کا مغربی کنارے اور اس کے جنوبی علاقوں سمیت متعدد دوسرے علاقوں تک پھیلانے کا امکان ہے؛اس کے نتیجے میں رام اللہ میں اس کے ہیڈ کوارٹر کے قریب جگہوں پر فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول کم ہو جائے گا، جو سب سے زیادہ اس تنظیم کا بااثر علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
ملر نے اعلیٰ صہیونی سیاسی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے تیسرے معاملے کی طرف اشارہ کیا اور لکھا کہ جنین پر حملے کا مقصد فلسطینی اتھارٹی کے لیے جنین کی واپسی کا راستہ تیار کرنا تھا،انہوں نے صہیونی حکام کی سوچ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا کہ کس طرح ان علاقوں میں فلسطینی اتھارٹی کے تسلط کو بحال کیا جائے یا اس کی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کیا جائے یا حماس اور اسلامی جہاد کی کشش کو کم کرنے کے لیے صیہونی حکومت کے حالات کو بہتر بنایا جائے۔
ملر نے موجودہ واقعات کو ان مسائل کے برعکس دیکھا کیونکہ صیہونی حکومت پورے مغربی کنارے کو مقبوضہ زمینوں کے ساتھ الحاق کرنے اور اس کا صرف ایک نام باقی رکھنے کی کوشش کر رہی ہے ،ان کے مطابق صیہونی حکومت کی موجودہ کابینہ کے اقدامات فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول کم کرنے اور حماس اور اسلامی جہاد کو مضبوط کرنے کا باعث بنیں گے۔
آخر میں ملر کے مطابق امریکہ، اقوام متحدہ اور دنیا کے بہت سے ممالک کا فلسطینیوں اور صیہونیوں کے درمیان تنازع کے معاملے سے تقریباً کوئی تعلق نہیں ہے اور فلسطینیوں اور صیہونیوں کا مزید اختلاط ان کے حالات کو مزید خراب کرنے کا باعث بنے گا۔