سچ خبریں: صیہونی وزیر اعظم نے اپنی انتہا پسند کابینہ کے اجلاس کے بعد حماس کے پاس موجود صیہونی قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کو ایک مشکل فیصلہ قرار دیا۔
صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر گفتگو کے لیے کابینہ کے اجلاس کے بعد کہا کہ تل ابیب کو ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہم صیہونی جیلوں میں موجود تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے کام کر رہے ہیں:حماس
الجزیرہ نیوز چینل کے ٹیلی گرام چینل کی رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے اس معاہدے کو درست سمت میں فیصلہ قرار دیا۔
صیہونی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ قیدیوں کو کئی مراحل میں رہا کیا جائے گا ، پہلا معاہدہ ان مراحل کا پہلا قدم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنگ جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم اپنے تمام مقاصد حاصل نہیں کر لیتے۔
7 اکتوبر کے آپریشن کے بعد، جسے حماس گروپ طوفان الاقصیٰ سے تعبیر کرتا ہے، اسرائیلی حکومت نے غزہ کو مکمل محاصرے میں لے رکھا ہے اور اس علاقے کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا ہے جبکہ صہیونی فوج نے چند ہفتے قبل غزہ پر زمینی حملہ کیا ہے۔
اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اس آپریشن کا حتمی ہدف حماس کی مکمل تباہی ہے،تاہم اس کے باوجود، بہت سے تجزیہ کار، حتیٰ خود مقبوضہ فلسطین کے اندر بھی، تل ابیب کی اس مقصد کو حاصل کرنے کی صلاحیت پر شک کرتے ہیں۔
نیتن یاہو، جن پر قیدیوں کے لواحقین نے ان کی رہائی کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے کا الزام لگایا ہے، نے کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ قیدیوں کی بازیابی ایک مقدس مشن ہے اور میں اس کے لیے پرعزم ہوں۔
نیتن یاہو کی کابینہ نے مقبوضہ بیت المقدس میں ان قیدیوں کے لواحقین سے ملاقات کی جنہوں نے احتجاج کے لیے طویل سفر طے کیا۔
گارڈین اخبار نے اطلاع دی ہے کہ ملاقات کے دوران قیدیوں کے اہل خانہ اور بعض اسرائیلی حکام کے درمیان بحث بھی ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق اسیران کے اہل خانہ نے بعض انتہائی دائیں بازو کے سیاست دانوں کی طرف سے بعض فلسطینیوں کو سزائے موت دینے کے منصوبے کی مخالفت کی اور اعلان کیا کہ اس طرح کے منصوبے کو آگے بڑھانے سے ان کے پیاروں کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکہ کو غزہ میں عارضی جنگ بندی پر تشویش کیوں ہے ؟
اس نظریے کی بعض اسرائیلی حکام نے مخالفت کی جن کا خیال تھا کہ حماس پر بڑھتے ہوئے فوجی دباؤ سے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کو آسان بنایا جا سکتا ہے جس کے بعد قیدیوں کے اہل خانہ اور ان اہلکاروں کے درمیان زبانی تنازعہ بھی ہوا۔
اپنے بیان کے ایک اور حصے میں نیتن یاہو نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدے کی شرائط کو بہتر بنانے میں مدد کی۔