سچ خبریں:جنرل سلیمانی کی شہادت نے امریکہ کو سکھایا کہ ایران غیر متوقع اقدامات کے ساتھ ایک سخت حریف ہے اور اب تک واشنگٹن صرف 2 وجوہات کی وجہ سے ایران کی جوابی کارروائی سے بچنے میں کامیاب رہا ہے۔
امریکی سیاسی تھنک ٹینک کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینئر محقق ڈوگ بانڈو نے ایک مضمون میں ٹرمپ انتظامیہ کی ایران کے خلاف کارکردگی پر خاص طور پر جنرل سلیمانی کی شہادت کے حوالے سے، تنقید کرتے ہوئے تہران کی طرف سے کسی بھی انتقامی کارروائی کے منطقی ہونے اور وائٹ ہاؤس کے رویے کا جائزہ لیا۔
انہوں نے لکھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے عالمی امن کے لیے خطرناک خطرات کا دور ختم ہونے کے بارے میں سوچا جارہا تھا لیکن اس کے بعد کے برسوں میں واشنگٹن نے دنیا بھر میں فوجی طاقت کا تیزی سے استعمال کیا ہے جس کے بعد یقیناً یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ گزشتہ 2 دہائیوں سے تقریباً مسلسل جنگ میں ہے جن میں سے بہت سی لڑائیاں پردے کے پیچھے سے لڑی گئی ہیں، جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیروں میں سے ایک جان بولٹن کو اغوا کرنے اور قتل کرنے کی مبینہ کوشش یا سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو دھمکیاں ملنے کے بہانے ایران کے ساتھ کشیدگی۔
ایران کے بیشتر ناقدین سعودی شاہی آمریت جیسی بدتر حکومتوں کی حمایت کرتے ہیں، ایک ایسی حکومت جو سعودی عرب کے اندر ظالمانہ رویہ اختیار کرتی ہے اور بیرونی میدان میں اس سے بھی زیادہ جارحانہ نیز مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے کئی دوسرے اتحادی اپنے ہی لوگوں پر جبر کر رہے ہیں اور اپنے شہریوں کو مشکوک الزامات میں قید کر رہے ہیں، تاہم بحرین، مصر، متحدہ عرب امارات اور دیگر نے واشنگٹن کو عطیات، اڈوں، ہتھیاروں کی خریداری اور حمایت کے وعدوں سے نوازا ہے۔
امریکی محقق نے لکھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے جنرل سلیمانی کو قتل کر کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی جبکہ عام حالات میں بھی انہیں نشانہ بنانا غیر معقول اقدام تھا، اس کے علاوہ جنرل سلیمانی کوئی نچلی سطح کے فرد نہیں بلکہ ایک اہم سیاسی اور عوامی شخصیت تھے جن کے لیے ایران میں عوامی سوگ حقیقی اور اندرونی تھا، تاہم اب تک واشنگٹن صرف خود پر قابو پانے اور قسمت کے 2 عوامل کے امتزاج کے ذریعے ایران کی انتقامی کارروائی سے بچنے میں کامیاب رہا ہے۔