سچ خبریں: جرمنی کی مسلمانوں کے تئیں اور غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کے بارے میں حالیہ پالیسیوں اور سیاسی موقف نے اس ملک کے معاشرے کو مزید شدت پسندی کا شکار بنا دیا ہے۔
جرمنی کے مسلمانوں اور فلسطین کے بحران کے حوالے سے برلن کے حالیہ سیاسی موقف اور فیصلے اس ملک میں انتہا پسندی کے پھیلاؤ کا باعث بنے ہیں کیونکہ انتہا پسند گروہوں نے موجودہ حالات سے فائدہ اٹھایا۔
یہ بھی پڑھیں: جرمنی میں مسلمانوں کی قبریں بھی اسلام مخالف حملوں سے محفوظ نہیں
گزشتہ تین ماہ میں جرمن حکام نے تقریباً 6 شدت پسندانہ کاروائیوں کو ناکام بنایا۔
جرمنی کے حالیہ موقف اور پالیسیاں غزہ میں صیہونی حکومت کی سیاسی اور فوجی مداخلت کے لیے جرمن حکومت کی حمایت کو ظاہر کرتی ہیں اور جرمنی ان 15 ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے UNRWA کی مالی امداد روک دی اور دعویٰ کیا کہ اس کا ایک ملازم 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے خلاف ہونے والے حملوں میں ملوث تھا۔
اس کے علاوہ جرمنی ان ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے حال ہی میں صیہونی حکومت کو ہتھیار برآمد کیے ہیں اور جب برلن حکومت سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر اپنی کارروائی کا جواز پیش کیا کہ ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ اس نے روایتی ہتھیار اس حکومت کو دیئے ہیں،ان کارروائیوں کے نتیجے میں انتہا پسند گروہوں کو اپنی انتہا پسندی پھیلانے کا سنہری موقع ملا۔
اس سے قبل جرمن حکام نے 12 اپریل 2024 کو برلن میں منعقد ہونے والی فلسطین کانفرنس کو منسوخ کر دیا تھا اور کانفرنس کی منسوخی کی مخالفت میں ایک گروپ کے جمع ہونے کے بعد پولیس نے ہجوم کو منتشر کر دیا۔
مزید پڑھیں: فرانس اور جرمنی میں اسلامو فوبیا عروج پر
اس سلسلے میں جرمن حکام نے حال ہی میں جرمن مساجد اماموں پر اپنا کنٹرول مزید سخت کر دیا ہے، برلن میں کئی مساجد کو بند کر دیا ہے اور ان میں سے کچھ کو سوشل میڈیا پر فعال ہونے سے روک دیا ہے، جس سے سیاسی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے اور انتہا پسندی کی وبا پھیلنے لگی ہے۔