سچ خبریں:ترکی کے انتخابات میں 5 ہفتے سے بھی کم وقت باقی ہے اور اس ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان قریبی مقابلہ دن بہ دن مزید جوش و خروش لاتا ہے۔
صدر کے اتحاد نے رجب طیب اردوغان کو امیدوار کے طور پر منتخب کیا ہے اور ملکی اتحاد کو امید ہے کہ کلچدار اوغلو کو 6 اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کے طور پر اقتدار میں لایا جائے گا۔ لیکن اس دوران پارلیمنٹ اور مقننہ میں داخل ہونے کا مقابلہ بھی کم اہم نہیں ہے۔ خاص طور پر اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ اگر اردوغان کو ہٹایا جاتا ہے تو ریفرنڈم کرایا جائے گا اور ترکی کا سیاسی نظام صدارتی سے پارلیمانی کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔
ترکی کی سیاسی جماعتوں نے پارلیمانی انتخابات کے لیے امیدواروں کی فہرست سپریم الیکشن کونسل کو فراہم کی اور مختلف جماعتوں کی فہرست میں اہم سیاسی شخصیات کے ناموں نے میڈیا کی توجہ مبذول کرائی۔
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے تھنک ٹینک، جس کا حکم اس پارٹی کے رہنما رجب طیب اردوغان نے دیا تھا پچھلے نمائندوں میں سے صرف ایک تہائی کو مقابلے کے مرحلے میں لایا اور 69% کی بڑی تبدیلی نافذ کر کے سب کو حیران کر دیا۔
ترکی کے تجزیہ کار مصطفی کارا علی اوغلو نے لکھا کہ اب پارلیمنٹ میں نمائندوں اور حتیٰ کہ ایگزیکٹو برانچ کی مرضی نام کی کوئی چیز نہیں ہے پارلیمنٹ کے اختیارات بہت محدود ہیں اور سیاسی نظام میں اس کی طاقت بہت کم کر دی گئی ہے۔
لامحدود اختیارات کے ساتھ ایگزیکٹو پاور صدر کے ہاتھ میں ہے۔ موجودہ نظام کے مطابق پارلیمنٹ ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو صدر کو پسند نہ ہو! اگر ہمیں انتخابات کے بعد کی مدت میں ایک مضبوط پارلیمنٹ کی تشکیل کا مشاہدہ کرنا ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا پارٹیوں کے نامزد کردہ نمائندے پارلیمنٹ کے لیے موزوں ہیں یا نہیں۔