سچ خبریں: امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے بعض اطلاعات کے برعکس ترکی کے لیے مزید تعزیری اقدامات کی وضاحت کرنے سے انکار کر دیا جو روسی S-400 فضائی دفاعی نظام کی دوسری کھیپ وصول کرنے جا رہا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ترکی نے ابتدائی طور پر 2017 میں روس سے S-400 سسٹم خریدا تھا امریکہ کی جانب سے سنگین انتباہات کے باوجود اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحران میں ڈال دیا تھا۔امریکی لڑاکا پروگرام F-35 کو فائر کیا گیا تھا۔ پھر ڈیفنس انڈسٹری آرگنائزیشن نے آنکارا اور اس کے لیڈروں پر پابندیاں لگا دیں اور واشنگٹن کو خدشہ تھا کہ روس کا طاقتور S-400 ریڈار سسٹم ماسکو کو جدید امریکی F-35 لڑاکا طیارے کی جاسوسی کرنے کی اجازت دے گا۔
لیکن اس بارمنگل کے روز امریکی ردعمل پر تقریباً خاموشی چھائی رہی اور امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک پریس کانفرنس میں ترکی سے کہا کہ وہ روسی دفاعی شعبہ کے ساتھ مزید بات چیت نہ کرے۔
اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بات یہ ہے کہ ہم پوری دنیا سے مسلسل یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یوکرین کے خلاف روس کی وحشیانہ اور بلاجواز جنگ کو روکنا بہت ضروری ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ یہ ضروری ہے کہ ہم روس کے دفاعی شعبے کے ساتھ بات چیت سے گریز کریں۔
انہوں نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ آیا ترکی کی طرف سے S-400 کی نئی خریداری بائیڈن انتظامیہ کو اس ملک کو امریکی F-16 لڑاکا طیاروں کی فروخت کے اپنے منصوبے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرے گی یا نہیں۔