سچ خبریں:مشہور امریکی فلسفی اور ماہر لسانیات نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے لیے امریکی معاشرے بالخصوص نوجوانوں کا رویہ بدل گیا ہے اور امریکہ اور اسرائیل کی قیادت میں بھی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔
مشہور امریکی فلسفی، ماہر لسانیات، مورخ اور سیاسی و سماجی نقاد نوم چامسکی نے الجزیرہ چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا معاشرہ پولرائزڈ ہو گیا ہے اور گزشتہ سالوں کے برعکس صیہونی حکومت کی حمایت کے حوالے سے امریکی نوجوانوں کا رویہ بدل گیا ہے،اس خصوصی گفتگو کے کچھ حصوں کا ترجمہ درج ذیل ہے: نیتن یاہو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ دائیں طرف چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ یاد رہے کہ اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کا نظریہ بدل گیا ہے،اس سے پہلے اسرائیل لبرل یہودی امریکیوں کا دلدادہ تھا لیکن اب امریکہ میں اسرائیل کے اصل حامی عیسائی اور ایوینجلیکل کلیساؤں کے انتہائی دائیں بازو ہیں جبکہ لبرل یعنی لبرل ڈیموکریٹس اسرائیل سے دور ہو گئے ہیں۔
چامسکی کا کہنا ہے کہ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ ڈیموکریٹس اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کی طرف زیادہ مائل اور ان کے زیادہ ہمدرد ہیں خاص طور پر یہودی نوجوانوں سمیت امریکی نوجوان طبقہ ،امریکی معاشرہ تقسیم اور پولرائز ہو چکا ہے اور یہ رجحان پھیل رہا ہے، اسی طرح اسرائیلی معاشرہ بھی، ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اسرائیل کی قیادت اور امریکہ کی قیادت الگ الگ راستے اختیار کر رہی ہیں اور اسرائیلی حکام جیسے اسموٹریج ، بن گوئر یہاں تک کہ کبھی کبھی نیتن یاہو بھیکھلے عام اور ڈھٹائی کے ساتھ امریکی قیادت سے کہتے ہیں کہ آپ جو چاہتے ہیں ہم اسے نظر انداز کر رہے ہیں، یہ نئی بات ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے بھی شاید اسرائیل ہر امریکی انتظامیہ میں واشنگٹن کی کچھ پالیسیوں کے ساتھ نہیں چلتا تھا لیکن جب امریکہ نے جب بھی کچھ کہا اسرائیلی حکام نے وہ کیا لیکن نئی انتظامیہ خاص طور پر بن گوئر (وزیر داخلہ) جیسے لوگ۔ اور اسموٹریج (وزیر خزانہ) امریکہ کو نہایت ہی آسانی سے کہہ رہے ہیں کہ جاؤ دفع ہو جاؤ، یہ پہلا موقع ہے کہ اس تناؤ کا اتنے واضح طور پر اظہار کیا گیا ہے جبکہ یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ اس کا کیا جواب دے گا۔
امریکی دانشور نے کہا کہ دو تین سال قبل امریکی ایوان نمائندگان کے ایک رکن بٹی میک کولم نے ایک تجویز پیش کی تھی جس میں اسرائیل کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا تھا،اس کے بعد ابھی چند روز قبل سینیٹر برنی سینڈرز نے بھی ایک تجویز پیش کی ہے کہ اسرائیل کو دی جانے والے امریکی فوجی امداد بند کی جانا چاہیے، میں تصور کرتا ہوں کہ یہ تمام واقعات مستقبل میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بنیں گے،ان تبدیلیوں کی بنیاد رائے عامہ میں تبدیلی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں ذاتی تجربے کی بنیاد پر رائے عامہ میں تبدیلی دیکھتا ہوں،پہلے جب میں فلسطینی اور اسرائیلی مسائل پر امریکی یونیورسٹیوں میں تقاریر کرتا تھا تو پولیس ہمیشہ مجھے اسرائیل کے حامیوں کے تشدد سے بچانے کے لیے تحفظ فراہم کرتی تھی لیکن اب یہ صورتحال بنیادی طور پر بدل چکی ہے،نوجوانوں کے حالات اور رویے بدل گئے ہیں، حتیٰ کہ اسرائیل کی حامی یونیورسٹیوں میں بھی؛ ان نوجوانوں کے رویے کا مستقبل میں ہم سب پر بہت اثر پڑے گا، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ تنازعات مزید گہرے ہوں کہ جو فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف ہوں گے اگرچہ یہ ابھی سیاسی سطح پر نظر نہیں آ رہے لیکن میرے خیال میں یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔