سچ خبریں: اسپینسر ایکرمین نے ماہنامہ نیشین کے لیے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ نہ تو اسرائیل اور نہ ہی اس کے امریکی اسپانسر غزہ کی جنگ جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اکتوبر 2023 میں اس بارے میں جو مضمون لکھا تھا اس میں میں نے خبردار بھی کیا تھا کہ اسرائیل کا غزہ پر آنے والا حملہ امریکہ کی مستقل جنگوں کے تمام آثار کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر کسی کو اب بھی اس فیصلے پر شک ہے تو وہ اس گھبراہٹ اور افراتفری سے قائل ہو گیا ہو گا جس کا ہم نے حالیہ ہفتوں میں مشاہدہ کیا ہے۔
حماس نے حالیہ مہینوں میں کئی بار اسرائیل کے عزائم کا مذاق اڑایا ہے۔ جنوبی شہر رفح پر حملے سے چند ماہ قبل صیہونی حکومت نے اس شہر کو حماس کا آخری گڑھ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ رفح پر قبضے سے حماس کا کام ختم ہو جائے گا۔ صیہونیوں کی نفسیاتی کارروائیوں کے جواب میں فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے ایک بار پھر غزہ کے شمال میں بعض محلوں میں قابضین کے خلاف اپنے گوریلا حملے شروع کردیئے۔
نیز غزہ میں قابض افواج کی موجودگی جاری رہنے کی صورت میں غزہ کے عوام کی ملک گیر بغاوت کے آثار ہیں جو جلد ہی اسرائیل کے لیے ایک نئے بحران میں بدل جائے گا۔ اس کے باوجود، اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو "مکمل فتح” پر اصرار کرتے رہتے ہیں اور بائیڈن کی جنگ بندی کی تجویز کا واضح جواب دینے سے گریز کرتے ہیں۔ یقیناً نیتن یاہو اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے دباؤ میں بھی ہیں اور وہ بائیڈن کے منصوبے سے عوامی طور پر اتفاق نہیں کر سکتے۔
دوسری جانب بائیڈن بھی افراتفری کی کیفیت میں گرفتار ہیں۔ بائیڈن کی صورتحال کی پیچیدگیاں یقیناً ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ ایک طرف اس نے جنگ بندی کے منصوبے کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر زور دیا ہے لیکن دوسری طرف وہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ جنگ کے پہلے ہفتے میں، بائیڈن نے اسرائیل کو 19 بلین ڈالر کا عطیہ دیا، جو 2023 میں جنگ کی کل لاگت کا ایک تہائی حصہ لے گا۔ اس تمام عرصے میں فلسطینی عوام امریکی بموں کی زد میں ہیں اور فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 37 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔