سچ خبریں: سوڈانی ماہر نے بعض افریقی ممالک میں حالیہ بغاوتوں کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے پیشین گوئی کی کہ بعض دیگر ممالک میں بھی فوج کے اقتدار میں آنے کا امکان ہے۔سوڈانی ماہر نے بعض افریقی ممالک میں حالیہ بغاوتوں کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے پیشین گوئی کی کہ بعض دیگر ممالک میں بھی فوج کے اقتدار میں آنے کا امکان ہے۔
افریقہ کو بغاوت کے شکار براعظم کے طور پر جانا جاتا ہے، کیونکہ ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جب ان ممالک کی فوج نے اپنے ملک کی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی کوشش کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افریقی عوام فرانس اور غیر ملکی ایجنٹوں کا انخلاء کیوں چاہتی ہے؟
اگرچہ افریقی ممالک کی فوج کی طرف سے اس قسم کی کاروائی ایک پرانی روایت بن چکی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حالیہ بغاوتیں، خاص طور پر نائجر اور گیبون کی بغاوتیں، بغاوت اور حکومتوں کے سربراہوں کا تختہ الٹنے سے بڑھ کر ہیں جن کا مقصد مغربی حکومتوں کی سامراجی پالیسیوں کا تختہ الٹنا ہے۔
اس طرح کے دعوے کی وجہ فوج کی فرانس سے اپنے ملک کا رابطہ مکمل طور پر منقطع کرنے کی کوششوں سے سمجھی جا سکتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیرس کے نوآبادیاتی قلعے یکے بعد دیگرے فتح کیے جا رہے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا افریقی ممالک فرانس کو اپنے ملک سے مکمل طور پر بے دخل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ یہ بغاوتیں افریقہ میں فرانس کا ہاتھ کس حد تک کاٹ کر اس براعظم میں اس ملک کی پوزیشن کو کمزور کر دیں گی۔
افریقی ممالک کی آزادی کے بعد اس براعظم میں تقریباً 214 بغاوتیں ہو چکی ہیں، ان میں سے افریقہ میں سب سے زیادہ بغاوت کا شکار ملک سوڈان ہے اور ہم اس ملک میں اب تک 17 بغاوتیں دیکھ چکے ہیں۔
افریقی ممالک میں بغاوت ایک روایت بن چکی ہے لیکن حالیہ فوجی بغاوتیں ان ممالک میں لوگوں کے بیدار ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں، اس بیداری کی دو اہم وجوہات ہیں؛ پہلی وجہ معاشرے کی فلاح و بہبود اور عزت کی سطح کو بڑھانے کی خواہش ہے اور دوسری وجہ فرانس اور امریکہ کی بالادستی سے افریقی معاشرے کا عدم اطمینان ہے۔
ان دونوں مسائل نے ان ممالک کی فوج کو بغاوت پر مجبور کر دیا ہے، لوگوں کی اکثریت ان بغاوتوں کی حمایت کرتی ہے،بلاشبہ نائجر میں حالیہ بغاوت بہت مختلف تھی الیے کہ اس ملک کے صدر محمد بازوم نائجر کے لوگوں میں ایک مقبول شخصیت تھے،بازوم کا تعلق لیبیا سے ہے، لیکن نائجر کے کچھ بڑے قبائل کی حمایت حاصل کر کے وہ اس ملک کی صدارتی نشست پر بیٹھنے میں کامیاب ہوئے، تاہم فرانس کے ساتھ ان کی پالیسی کی وجہ سے فوج اور ان کی حکومت کے درمیان تصادم ہواجس کے بعد انہیں تخت سے اتار دیا گیا۔
یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی ممالک ان بغاوتوں کا مقالہ کیسے کریں گے؟ جس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی طور پر، وہ خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گرد گروہوں اور مقامی اداکاروں جیسے قبائل کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔
مزید پڑھیں: افریقہ میں انسانی حقوق کے حوالے سے فرانس کا سیاہ ریکارڈ
یہاں تک کہ نائجر کی ملٹری کونسل نے کہا ہے کہ فرانس نے کچھ دہشت گرد گروہوں کے رہنماؤں کو رہا کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ اقتصادی معاملے میں ان ممالک پر دباؤ ڈالیں گے جیسا کہ نائجر، برکینا فاسو اور مالی کے خلاف پابندیاں جاری ہیں نیز سیاسی پہلو سے بھی ان ممالک کی تنہائی کے عمل کا آغاز دیکھنے کو ملے گا۔
مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی برادری (ECOWAS) کی طرف سے نائجر کو تنہا کرنا ان سیاسی اقدامات میں سے ایک ہے۔