سچ خبریں:صیہونی حکومت کو امید تھی کہ 2020 میں بحرین، مراکش، سوڈان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو باضابطہ طور پر معمول پر لانے والا معاہدہ اس کی سیاحتی صنعت کو بدل دے گا اور عربوں کو اس ریاست میں لائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
برطانوی میگزین اکانومسٹ نے اپنے ایک کالم میں بعض عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے منصوبے کو آگے بڑھانے میں صہیونیوں کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے اس معاملے میں تل ابیب کی کامیابیوں کو انتہائی معمولی قرار دیا ہے، کالم کے ایک حصے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی عرب سیاحت اب بھی سیاست اور فلسطین پر کشیدگی سے متاثر ہے۔
رپورٹ کے مطابق مسجد اقصیٰ کے قریب اسرائیلی پولیس کی فلسطینی نوجوانوں کے ساتھ جھڑپوں کے بعد نیل فیسٹیول، جس کی مصری شاخ کو بائیکاٹ اور اسرائیل کے بائکاٹ کی عالمی مہم کا سامنا کرنا پڑا، منسوخ کر دیا گیا،مصر میں فلسطینیوں کے حامی گروہوں نے اس فیسٹیول کے منتظمین کو نسل پرست صیہونی غاصب کے طور پر متعارف کرایا تھا۔
کالم میں مزید آیا ہے کہ مصریوں کی طرف سے صحرائے سینا کے یوم آزادی کی تقریبات کے دوران اسرائیل مخالف ٹویٹس میں نمایاں اضافہ ہوا، ساتھ ہی اسرائیل کو امید تھی کہ 2020 میں اسرائیل کے بحرین، مراکش، سوڈان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کو باضابطہ طور پر معمول پر لانے والے معاہدے سے اس کی سیاحتی صنعت میں تبدیلی آئے گی اور اس ملک میں عربوں کی آمد ہو گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
کالم نگار نے صہیونیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں عرب ممالک کے عوام کی عدم دلچسپی پر تاکید کرتے ہوئے مزید لکھا کہ اس مسئلے کی ایک وجہ صیہونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں پر ہونے والا ظلم ہے جسے لے کر عرب عوام غصہ ہیں۔
یاد رہے کہ زیادہ تر مصری 1979 میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے سے نفرت کرتے ہیں، قابل ذکر ہے کہ اسرائیل آنے والے مصری، اردنی، مراکشی اور متحدہ عرب امارات کے سیاحوں کی تعداد صرف 26400 تھی جب کہ باقی دنیا میں ان ممالک کے سیاحوں کی تعداد 27 لاکھ تھی۔