سچ خبریں:اسرائیل کے چوتھے پارلیمانی انتخابات ختم ہوچکے ہیں اور ووٹوں کی گنتی سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیامین نیتن یاھو کی پارٹی لازمی نشستیں حاصل نہیں کر سکی ہے اور وہ اب بھی اکیلے کابینہ نہیں تشکیل دے سکتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو حالیہ ہفتوں میں نفتالی بنت کو رعایت اور وعدے دے کر سمورٹش اور بن غفیر کے ساتھ اپنی جماعت کےدائیں بازوں کے ساتھ اتحاد میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر چہ انتخابات میں ان کی حالت بھی نیتن یاہو سے کچھ بہتر نہیں ہے اور وہ بھی لازمی نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے نتیجہ میں مغربی کنارے میں اپنے توسیع پسندانہ فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کر سکے ہیں،یادرہے کہ اسرائیل میں ہونے والے انتخابات کے ابتدائی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ نیتن یاہو کے اتحادیوں نے اپنی نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے باوجود لیکوڈ کی زیادہ نشستوں کی کمی نے نیتن یاہو کو ایک تاریک کھائی میں ڈال دیا ہے جس سے باہر نکلنے کا راستہ پچھلے دو سالوں میں پانچویں مرحلے کے انتخابات ہوسکتے ہیں ہے اور ایسا ہی ہوگا ۔
واضح رہے کہ مقبوضہ فلسطین میں نئی حکومت کی تشکیل کے منظرنامے نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی میں 59 ممبروں کے ساتھ کنیسیٹ جانے تک سے قاصرہیں تاہم اگر وہ پانچ سیٹیں جیتنے والے منصور عباس کی حمایت حاصل کرلیتے ہیں جو مشکل ہے کیوں کہ لیکوڈ اتحادی بنت، بینگیفیر اور سموتراٹ عربوں کے ساتھ کسی بھی اتحاد کو مسترد کرتے ہیں اور عربوں کی حمایت یافتہ حکومت میں حصہ نہیں لینا چاہتے ہیں،تاہم اس کا حل عباس اور نیتن یاہو کے مابین ایک خفیہ معاہدہ ہوسکتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ عباس کنیسیٹ کے ووٹنگ اجلاس میں موجود نہیں رہیں گے اور نیتن یاہو کنیسیٹ میں اکثریت سے ووٹ حاصل کرسکیں گے
ایک اور منظرنامہ یہ ہے حالانکہ یہ امکان نہیں ہے کہ جدعون ساعر دوبارہ لیکوڈ پارٹی میں شامل ہوجائیں اور اگر وہ محکمہ خارجہ جیسی اہم وزارت سنبھالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو شاید 4 سال کے لئے مستحکم کابینہ بن جائے لیکن اگر اس منظر نامے کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو ، اس سے جدعون ساعر کا سیاسی مستقبل تباہ ہوجائے گا کیونکہ ان کے حامیوں نے نیتن یاہو کو وزیر اعظم کی کرسی سے ہٹانے کے لیے انھیں ووٹ دیے ہیں ،کیا یہ ممکن ہے کہ نیتن یاہو کی حریف جماعت ، جس کی سربراہی یائیر لاپیڈ کریں گے، کابینہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائے گی؟ بہت سی وجوہات کی بناء پر یہ منظر نامہ بھی ناممکن ہے اس لیے کہ ان میں ، لیپڈ جو اتحاد تشکیل دیں گے اس میں ساعر اور ایویگڈور لیبرمین کے علاوہ دو عرب فہرستیں بھی شامل ہوں گی، اگر ساعر اور لیبرمین عرب کی حمایت یافتہ حکومت میں حصہ لیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود ہی پیروں پر کلہاڑی ماریں گے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تک کہ لیپڈ بھی ایسی حکومت میں حصہ لینے کے لئے تیار نہیں ہے جس میں عرب اس کی بقا اور استحکام کی ضمانت موجود ہو چنانچہ صہیونی حکومت کے چوتھے انتخابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتحادیوں میں سے کوئی بھی کابینہ کے لئے ضروری نشستیں حاصل نہیں کرسکا ہے، تل ابیب کے سیاسی حلقے یہ بھی مانتے ہیں کہ نیتن یاھو کی لیکوڈ پارٹی کی سیاست میں رہنے کی کوششیں بیکار اور ایک طرح کا شیطانی حلقہ ہے۔