سچ خبریں: اردن کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے شہریوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے ایران کے خلاف امریکہ، انگلینڈ اور صیہونی حکومت کا ساتھ دیا ہے لیکن اس نے ابھی تک فلسطین بالخصوص غزہ کے مظلوم عوام کے دفاع کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
سفارتی مذاکرات یا سیاسی بیانات سے قطع نظر، بین الاقوامی تعلقات میں جو چیز اہم ہے وہ عملی اقدامات ہیں نہ کہ میدان میں موجود ممالک کے اعلانات،طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد خطے کے عرب ممالک بالخصوص اردن نے فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک بڑی آبادی کی میزبانی اور جغرافیائی طور پر مغربی کنارے سے متصل ہونے کی وجہ سے ایک ایسا چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی جو فلسطینی قوم کے ساتھ ہے اور نیتن یاہو کے مخالفت ہے، غزہ کی پٹی میں جاری نسل کشی کے خلاف اردنی عوام کے غصے کو قابو کرنے کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنا یا مقبوضہ علاقوں سے اپنے سفیر کو واپس بلانا عمان کے پروپیگنڈے کا حصہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کی علاقائی طاقت کے بارے میں اردن کا اظہار خیال
اردنیوں کی سفارتی مہم کے برعکس، 13 اپریل کو جو کچھ ہوا وہ اسرائیل کی حفاظت کے لیے امریکی-فرانسیسی شراکت داروں کے ساتھ اردنی دفاعی نظام کا عملی تعاون تھا، اگرچہ وال سٹریٹ جرنل اور دی اکانومسٹ جیسے بعض خبری ذرائع ریاض اور ابوظہبی کے صیہونویں کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون کی بات کرتے ہیں لیکن یہ اردن ہی تھا جو عمل کے میدان میں صہیونیوں کی مدد کے لیے دوڑا، اس تجزیے میں ہم النقب سیکیورٹی میٹنگ میں طے شدہ شرائط پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے صیہونی حکومت کے ساتھ اردن کے فوجی سیکیورٹی تعاون کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
النقب ؛ عبرانی عرب اتحاد کا سنگ بنیاد
28 مارچ 2022 کو امریکہ، مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے وزرائے خارجہ صحرائے النقب میں جمع ہوئے اور مزاحمت کے محور کے خلاف سیکیورٹی-اقتصادی میکانزم کی تشکیل پر تبادلہ خیال کیا، تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت شاہ عبداللہ محمود عباس سے ملاقات کے لیے مغربی کنارے گئے تھے اور ایمن صفدی بھی دوحہ میں موجود تھے۔
اس اجلاس میں اردنی حکام کی عدم شرکت نے بعض ماہرین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اردن نے اسرائیل اور خلیج فارس کے ممالک کے درمیان تعلقات کے معمول پر آنے کے بارے میں مایوسی یا تہران کے ساتھ سیکیورٹی مذاکرات کو خطرے میں ڈالنے کے خوف کی وجہ سے اجلاس سے دستبرداری اختیار کر لی ہے، ان قیاس آرائیوں کو اس وقت تقویت ملی جب اردنی وزیر خارجہ نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ ان کا ملک کبھی بھی ایران مخالف میکانزم کا رکن نہیں بنے گا، تاہم، میڈیا کی نظر سے جو چیز پوشید رہی وہ تھی اردن کی خودمختاری کے لیے اس ملک کی رائے عامہ کا حکومت کے ساتھ ہونا اور امریکہ اور اردن کے درمیان 15 سالہ دفاعی معاہدہ تھا۔
ٹرمپ کی شکست اور ڈیموکریٹس کے واشنگٹن میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد قطر کے ساتھ ساتھ اردن، امریکہ کا نان نیٹو پارٹنر بن گیا اور عمان مشرقی عرب خطے میں امریکی افواج کی توجہ کا مرکز بن گیا، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اردن شام، عراق اور مقبوضہ فلسطین کے لیے CENTCOM کی مدد، رسد اور آپریشن کا مرکز بن گیا۔
اس وقت 3000 امریکی فوجی الازرق بیس پر موجود ہیں، اردن اور امریکی حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی بنیاد پر واشنگٹن نے اس عرب ملک کی زمینی اور فضائی سرحدوں کے دفاع کا عہد کیا یا یوں کہا جائے کہ واشنگٹن سے 425 ملین ڈالر کی امداد حاصل کرنے کے بدلے اردن نے سینٹ کام اور پھر صیہونی حکومت کے دفاعی جارحانہ نظام کو اپنی فضائی حدود فراہم کی، اس طرح کا معاہدہ امریکی حکام کو عمان سے سیاسی اجازت حاصل کرنے کی شدید ضرورت محسوس کیے بغیر مزاحمتی قوتوں کے ساتھ براہ راست تصادم میں حصہ لینے کی اجازت دے گا، اردن اور امریکہ کے درمیان اس طرح کے فوجی اتحاد کی تشکیل نے اس ملک کو عملی طور پر النقب کے سیکیورٹی میکنزم کا حصہ بنا دیا ہے جبکہ اس عرب ملک کو ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے کھل کر سامنے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔
امان کو وارننگ سگنل بھیجنے کی ضرورت ہے
اردن چار ممالک شام، عراق، سعودی عرب اور مقبوضہ فلسطین کے ساتھ مشترکہ سرحد کی وجہ سے خطے کے ہر ایک فعال کھلاڑی کے لیے ایک اہم جغرافیائی سیاسی قدر رکھتا ہے، شاید اسی وجہ سے امریکیوں نے ترکی اور قطر میں اپنے فوجی دستوں کو کم کرکے اردن منتقل کرکے مشرقی عرب خطے کے قلب میں بسنے کی کوشش کی۔
ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان کشیدگی کی بڑھتی ہوئی سطح کو دیکھتے ہوئے اردن کے رویے کو درست کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے، اردنی حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے شہریوں کی جانوں کے تحفظ اور جنگ کے دائرہ کار کو اس ملک تک پھیلنے سے روکنے کے لیے ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کے خلاف کارروائی کی۔
یہ دعویٰ اس وقت کیا جاتا ہے جب یہ عرب ملک فلسطینیوں کی جانوں کے تحفظ، مسجد اقصیٰ کے تقدس کے تحفظ یا مغربی کنارے میں آباد کاری میں شدت کو روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کرتا۔
مزید پڑھیں: اردن اور صیہونی حکومت کے تعلقات کی تاریخ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردن کا سیکیورٹی اپریٹس مزاحمت میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی شناخت اور گرفتاری کیسے کرتا ہے، لیکن غزہ کے مسلمانوں کی حمایت کے لیے تل ابیب کے ساتھ کیے گئے سیکیورٹی معاہدوں کو نہیں چھوڑتا؟ حقیقت یہ ہے کہ اردن کے حکمران باتوں میں اپنے آپ کو غیر جانبدار اداکار اور قدس کاز کے حامی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ مزاحمتی محور کے مقابلے میں مغربی پیادہ ہیں اور سینٹ کام کی حفاظتی پہیلی کا حصہ ہیں۔