?️
سچ خبریں:ٹرمپ کے 20 نکاتی صلح منصوبے کے اندر سیاسی اور سکیورٹی شرائط غزہ اور پوری فلسطینی قوم کے لیے سنگین خطرات ہیں۔
ٹرمپ کا منصوبہ براہِ راست غزہ کے مستقبل اور فلسطینی قومی منصوبے کے بقا کے خلاف ایک منظم اسٹرٹیجی دکھائی دیتا ہے اور حماس کا جوابی موقف ہم اسے کیوں علقمندانہ قرار دیتے ہیں، اس کا جائزہ درج ذیل ہے۔
چند روز قبل وائٹ ہاؤس نے بیس شقوں پر مشتمل ایک دستاویز بطور صلح کا منصوبہ پیش کی، جس پر ڈونلڈ ٹرمپ اور صیہونی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دستخط تھے،اسی دستاویز کے جواب میں حماس نے اپنا موقف شائع کیا جسے بہت سے مبصرین نے ذمہ دارانہ اور سوچ سمجھ کر دیا گیا جواب قرار دیا اور یہ اسی لیے ہے کہ اس منصوبے کے اندر ایسے کئی سیاسی اور سکیورٹی جال (مائنز) پوشیدہ ہیں جو فلسطینی حقوق اور قومی خود ارادیت کو کمزور کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کا غزہ منصوبہ, عرب دنیا کے لیے ایک نیا امتحان
مجموعی طور پر منصوبہ امن اور تعمیرِ نو کے وعدے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، مگر اس کے بیج میں کئی شرائط ایسی ہیں جن کا معنی یہ بنتا ہے کہ فلسطینی عوام اپنی بنیادی آزادیوں اور سیاسی حقوق کے بدلے مالی و انتظامی امداد اور جزوی تحفظات قبول کر لیں۔ تاریخ کے تلخ تجربات اعلامیہ بالفور (1917) سے لے کر 1948 کے قبضہ تک اور پھر اسولو معاہدے (1993) اس طرزِ کار کے خطرناک نتائج واضح کرتے ہیں، یہی تجرباتی پسِ منظر ہمیں خدشات کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
ٹرمپ منصوبے کے خطرناک گوشے
مشروط جنگ بندی
منصوبے میں فوری جنگ بندی انسانی رخ پیش کرتی ہے، مگر وہ مشروط ہے اور دراصل ایک آزمائشی مرحلے جیسا ہے جو فلسطینیوں کو نئی شرائط کے آگے جھکنے کے لیے پرکھتا ہے ، جنگ بندی مستقل اور غیرمشروط حق تصور نہیں کیا گیا۔
- حماس کا مکمل غیر مسلح ہونا
اس منصوبے کا بنیادی نکتہ حماس کا بین الاقوامی نگرانی میں مکمل غیر مسلح ہونا ہے، اسطرح مزاحمتی قوتوں کو کمزور سمجھ کر ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے، جبکہ قابض مسلح قوتیں برقرار رہیں گی یعنی حقیقی امن کی بات نہیں بلکہ ایک جانبہ تسلیم نامہ۔ - قیدیوں کا تبادلہ — ناموزوں معاہدہ
منصوبے میں صیہونی قیدیوں کی رہائی کو انسانی اقدام کے طور پر پیش کیا گیا ہے، مگر اس کی شقوں کے مطابق فلسطینی قیدیوں کی رہائی مساوی اور منصفانہ نہیں دکھائی دیتی ، تبادلہ ایک طرفہ فائدے پر مبنی ہو سکتا ہے۔ - واپسی کا مشروط اصول
رپورٹ کے مطابق صیہونی افواج کی واپسی مشروط ہے، اگر فلسطینی شقوں کی خلاف ورزی کریں گے تو قابض فورسز کو دوبارہ واپس کا حق ہو گا، اس سے حقیقت میں مقبوضہ سرزمین پر مستقل دباؤ اور عدم خود مختاری کا راستہ کھلے گا۔ - عبوری حکومتِ زیرِ نگرانی (انٹرنیشنل کونسل)
اس منصوبے کے ذریعے غزہ میں ایک عبوری انتظام قائم کرنے کی تجویز ہے جسے بظاہر بین الاقوامی کونسل یا ٹونی بلر جیسے ناموں کے تحت منظم کیا جائے گا، عملی تجربات کا ثابت ہوچکا ہے کہ ایسی عبوری قوّات اکثر مستقل قیمومیت میں بدل جاتی ہیں اور مقامی خود ارادیت کو ختم کر دیتی ہیں، نیز یہ مغربی اردن سے غزہ کے رابطے کو کاٹ کر قومی وحدت کو متاثر کر سکتی ہیں۔ - بطور لگان تعمیرنو
غزہ کی تعمیر نو کو وسیع شرائط سے مشروط رکھا گیا ہے، فنڈنگ کا کنٹرول بیرونی اداروں کے ہاتھ میں ہوگا اور یہ سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال ہوگا، یعنی فلسطینی قیادت کو مخصوص پالیسیوں پر رضامند کروانا ہی تعمیر نو کی شرط بن جائے گی۔ - الٹیمیٹم کی صورتِ حال
منصوبے کے سب سے خطرناک پہلو میں ایک واضح الٹیمیٹم ہے؛یہ منصوبہ ایک منصفانہ امن پیش نہیں کرتا بلکہ فلسطینی عوام اور مزاحمت کو ایسے حالات میں دھکیلتا ہے کہ ردِعمل کی صورت میں اسرائیل کو سخت ترین کارروائیاں کرنے کی سیاسی و اخلاقی چھوٹ مل سکتی ہے ، یوں منصوبہ دراصل جنگ کے شدت اختیار کرنے کے راستے کو کھلا چھوڑتا ہے۔
نتیجہ : منصوبہ ایک سیاسی جال ہے، امن کی راہ نہیں
مجموعی طور پر ٹرمپ منصوبہ بشری نوعیت کے وعدوں کے پیچھے ایک مفصل سیاسی نقشہ رکھتا ہے جو قیمومیت، معاہداتی پابندیوں اور عسکری عدم توازن کو طویل مدت کے لیے معیاری بنانا چاہتا ہے، یہ منصوبہ فلسطینی قومی پروجیکٹ کو ایک تکنیکی و عارضی معاملے میں بدل ڈالنے کی کوشش کرتا ہے یعنی قومی حق خود ارادیت کو باقاعدہ ٹیکنیکل امور میں تحلیل کر دینا۔
حماس کا علقمندانہ ردِعمل کیوں معنی خیز ہے؟
حماس کا جواب اس لیے علقمندانہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس نے ان تمام شرائط کو براہِ راست چیلنج کیا جو فلسطینی خود مختیاری اور بنیادی سلامتی کو ختم کر سکتی تھیں، حماس کی پالیسی میں واضح طور پر قومی مفاد کو مقدم رکھنا اور بیرونی قیمومیت کے خلاف مؤقف اپنانا شامل ہے ، اس طرح اس نے بین الاقوامی محاذ پر سیاسی سرمایہ کاری بھی محفوظ رکھی اور اندرونی حوالے سے اپنے عوامی بنیادوں کی نمائندگی کا دعویٰ مضبوط کیا۔
فلسطینیوں اور بین الاقوامی کمیونٹی کے لیے عملی سفارشات
- منصوبے کے ہر شق کی بند بہ بند تکنیکی و قانونی جانچ ضروری ہے تاکہ کسی بھی پوشیدہ قیمومیتی شق کو بے نقاب کیا جا سکے۔
- غزہ کے مستقبل کے بارے میں فیصلے فلسطینی نمائندہ فورمز اور یکجہتی کے ذریعے ہونے چاہئیں، نہ کہ بیرونی منضبط یا عندیہ کردہ ڈھانچوں کے تحت۔
- تعمیرنو کے مالی وسائل شفاف اور غیر مشروط میکانزم کے تحت فراہم کیے جائیں ، سیاسی شرائط سے آزاد۔
- علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر فلسطینی آواز کو قانونی اور سیاسی سطح پر مضبوط طریقے سے منظم کیا جائے تاکہ منصوبے کو محض تکنیکی معاملہ بنانے کی کوشش ناکام بنے۔
پہلا مائن: ایک عارضی وعدہ جو مستقل حقیقت بن جاتا ہے
فلسطین کی تاریخی صورتِ حال سکھاتی ہے کہ عارضی اصطلاحات اکثر مستقل قوانین میں ڈھل جاتی ہیں؛ اعلانِ بالفور سے لیکر اوسلو تک، جہاں عارضی وعدے سیاسی حقیقت بن کر فلسطینی قومی منصوبے کو سوالیہ نشان بناتے رہے۔
ٹرمپ پلان میں غزہ کے لیے ایک عبوری ادارہ تجویز ہے جسے بین الاقوامی قوتیں چلائیں گی، ظاہر میں یہ عارضی ہے، مگر اس کی آپریشنل و انتظامی صلاحیتیں اس کی طوالت کو یقینی بناتی ہیں، یوں بہت جلد ایک نئی سیاسی حقیقت مسلط ہو سکتی ہے؛ غزہ اور مغربی اردن کی جدائی اور قومی منصوبے کا حاشیے پر چلے جانا۔
دوسرا مائن: فطری و بدیہی حقوق کو فنی و سکیورٹی فائل میں بدل دینا
فلسطینی عوام کے سیاسی حقوق کو تاریخ بھر میں فنی یا سکیورٹی مسئلہ بنا کر ان کی روح نکالی گئی، آج ٹرمپ پلان میں حماس کی خلعِ سلاح کو بازسازی غزہ کی پیشگی شرط بنایا جا رہا ہے، جبکہ اسرائیلی قبضہ اور اس کے اسلحے پر بات ہی نہیں۔
نتیجہ؛ مزاحمت کا سیاسی پہلو غیرمرکزی اور فلسطینیوں کے مجموعی سیاسی حقوق نظرانداز۔
تیسرا مائن: اقتصادی لالچ کے بدلے سیاسی حقوق سے دستبرداری
یہ سب سے خطرناک پہلو ہے، ایک پرانا سودا دوبارہ؛ خوشحالی کے وعدے کے بدلے بنیادی حقوق چھوڑ دو۔ اعلانِ بالفور نے ترقیاتی خواب دکھائے؛ اوسلو نے فلسیطنی اتھارٹی کو بین الاقوامی بجٹ کی زنجیر میں جکڑا۔ اب ٹرمپ منصوبہ نئی حکومت کی لالچ دیتا ہے جسے بین الاقوامی ادارے چلائیں گے۔ یوں تعمیرنو کو سیاسی بلیک میلنگ کا آلہ بنایا جاتا ہے۔ نتیجہ؛ غزہ کی معیشت ہمیشہ نازک، مکمل انحصار، آزادی و حاکمیت سے محروم۔
چوتھا مائن: بنیادی مسائل کو لامتناہی بعد کے مراحل میں دھکیلنا
اوسلو کی طرح ٹرمپ منصوبہ بھی بنیادی مسائل کو آئندہ مرحلے تک مؤخر کر دیتا ہے، بغیر ٹائم لائن اور ضمانت کے۔ نتیجہ؛ حاکمیت کے بغیر تعمیرنو، بغیر حل کے جنگ بندی، اور عبوری مرحلہ ہی منزل میں بدل جانا اور یہی قومی منصوبے کے زوال کی راہ ہے۔
پانچوان منز مائن: بین الاقوامی قیمومیت اور سیاسی تطہیر
بین الاقوامی کونسل کے زیرِانتظام غزہ محض جدید قیمومیت ہے جو غیرجانب داری کے پردے میں فلسطینی حقِ حاکمیت چھینتا اور فیصلہ سازی بیرونی ہاتھوں میں دیتا ہے، نتیجہ؛ غزہ قومی ارادے سے کٹا ہوا ایک تابع ادارہ اور فلسطینی قومی منصوبے کے لیے کھلا خطرہ۔
چھٹا مائن: مذاکرات میں طاقت اور تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کرنا
تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی شرائط مسلط کرنے کو طاقت استعمال ہوئی۔ اب صراحت سے کہا جا رہا ہے کہ منصوبے کی مخالفت پر امریکی پشت پناہی کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائیاں تیز ہوں گی، نتیجہ؛ تسلیم-بالجبر کا منطق، جس میں امن کا مطلب فلسطینیوں کی مکمل اطاعت ہے، نہ کہ عادلانہ حقوق۔
ساتواں مائن : فلسطین کی تجزیہ کاری اور قومی منصوبے کی تکہ بوٹی
ٹرمپ منصوبے کی روح ارضِ فلسطین کو ٹکڑوں میں بانٹنا ہے، غزہ کے لیے علیحدہ بین الاقوامی انتظام، مغربی اردن سے کمزور رابطہ؛ یہی قومی وحدت کو نقصان پہنچاتا اور قابضین کے مقاصد کو تقویت دیتا ہے۔
اعلانِ بالفور و اوسلو کی تجدیدِ نو
یہ منصوبہ محض تنازع کے حل کی پیشکش نہیں، بلکہ پرانے ہتھکنڈوں کی جدید پیکنگ ہے؛ بین الاقوامی کونسل، میگا تعمیرنو پروجیکٹس، اسمارٹ میڈیا مارکیٹنگ، عالمی نام مگر جوہر وہی: مسئلہ فلسطین کو منیج کر کے بالتدریج ختم کرنا۔
صیہونی-ٹرمپ منصوبے کے علاقائی خطرات
- علاقائی تعلقات کی بحالی؛ غزہ کی انتظامی تقسیم—بین الاقوامی انتظام کے تحت—مغربی اردن سے کٹاؤ اور عرب-اسرائیل تعلقات کی بحالی کو انسانی امداد/معاشی امن کی آڑ میں تیز کرنا؛ عرب افواج کا صیہونی فورسز کے ساتھ بغیر فلسطینی شمولیت تعاون، اور فلسطینی دباؤ سے خالی ڈھانچہ۔
- توانائی و معیشت کی سکیورٹی: تعمیرنو کو علاقائی انٹیگریشن، توانائی و بندرگاہی کوریڈورز سے باندھنا—ایک ایسا اقتصادی حب جو عملاً صیہونی کنٹرول میں ہو اور فلسطینی وجود کم سے کم۔
- نفوذ کے محور: بین الاقوامی کونسل فلسطینی حاکمیت کا مفہوم بدل دیتی ہے، اور امریکہ/مغرب کے سیاسی-معاشی نفوذ کے لیے اسٹریٹجک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔
مسئلہ فلسطین کو کیسے بچایا جائے؟ (عملی روڈمیپ)
- سرخ لکیریں متعین کریں: بازسازی تبھی قبول ہو جب قابض فوج کے انخلا کا واضح ٹائم ٹیبل اور پوری سرحدی/گزرگاہی حاکمیت فلسطینیوں کے پاس ہو۔
- جامع قومی اتفاقِ رائے: کوئی بیرونی انتظام فلسطینی نمائندہ اداروں (مزاحمتی گروہ، قومی کونسل، عدلیہ، سول سوسائٹی) کی مکمل شمولیت کے بغیر قبول نہ ہو۔
- تعمیرنو کے شفاف، غیرمشروط میکانزم: فنڈنگ معاہدوں میں ادارہ جاتی ملکیت و آپریشنل صلاحیت کی تدریجی منتقلی فلسطینی اداروں کو یقینی بنائیں—تاکہ تعمیرنو بلیک میلنگ نہ بنے بلکہ حاکمیت کی بازیابی ہو۔
- قانونی و سفارتی محاذ: اقوام متحدہ، آئی سی جے اور حقوقِ انسانی فورمز پر لاگو اور پابند شرائط کے ساتھ یہ اصول مستحکم کریں کہ غزہ کی بیرونی دائمی مینجمنٹ ناقابلِ قبول ہے۔
- اسٹریٹجک میڈیا کمپین: تاریخی شواہد، قانونی دلائل اور مربوط میڈیا پلان کے ساتھ پلان کی بلیک میلنگ مکینزم کو بے نقاب کریں؛ تاکہ عالمی رائے عامہ امن کی مارکیٹنگ نہیں، قیمومیت کے خطرات دیکھے۔
حماس کا جواب عقلمندانہ کیوں؟
حماس نے نسل کشی روکنے کی ذمہ دارانہ ترجیحات پر زور دیتے ہوئے اپنی بنیادی شرائط سے دستبردار نہیں ہوئی اور کئی بنیادی اختلافات اجاگر کیے:
- تفصیلی مذاکرات پر اصرار؛ غزہ کے مستقبل اور قومی حقوق پر حماس کی بااختیار شمولیت؛ دہشت گردی کا لیبل مسترد۔
- فلسطینی قیادت کے زیرِانتظام غزہ: بین الاقوامی قیمومیت کے بجائے آزاد، قومی اتفاقِ رائے پر مبنی فلسطینی انتظام۔
- عرب و اسلامی پشت پناہی پر زور، محض رسمی مشاورت نہیں۔
- قومی-قانونی فریم ورک: بین الاقوامی قوانین/قراردادوں کی زبان استعمال کر کے پلان کی قانون شکنی کو سفارتی طور پر چیلنج کرنا۔
- حماس کی ذمہ دارانہ شمولیت: تنظیم کے اخراج/تبعید کی شقیں مسترد؛ قومی ڈھانچے کے اندر کردار پر تاکید۔
- مزاحمتی تحریک کے اسلحہ کی منتقلی، غیر مسلح نہیں؛ اسلحہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کے سپرد یعنی فلسطینی اسلحہ برقرار۔
نتیجتاً مبصرین کے نزدیک منصوبے کی موجودہ شکل کی قبولیت نہیں؛ آئندہ سیاسی تعاملات اس فرق کو مزید واضح کریں گے۔ اسی طرح، ٹرمپ کے دعووں کے برعکس آتش بس اور اسیروں کے تبادلے کی کوئی قطعی ٹائم لائن آج کی تاریخ میں متعین نہیں کی جا سکتی۔
مزید پڑھیں:ٹرمپ کا غزہ منصوبہ ایک تباہی ہے:برطانوی اخبار
خلاصہ
ٹرمپ منصوبے کے امن و تعمیرنو بیانیہ دراصل قیمومیت، عسکری عدم توازن اور سیاسی بلیک میلنگ کا پیچیدہ خاکہ ہے۔ اگر فلسطینی قیادت انخلا کی ٹائم لائن، مکمل حاکمیت، غیرمشروط بازسازی اور قومی اتفاقِ رائے کو سرخ لکیریں بنائے، تو یہ منصوبہ اپنی موجودہ صورت میں ناکارہ رہتا ہے اور حماس کا جواب اسی اسٹریٹجک فہم کی عکاسی کرتا ہے۔
مشہور خبریں۔
ملک بھر میں ڈپٹی کمشنرز، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز کے تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد
?️ 13 دسمبر 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 8 فروری 2024
دسمبر
یومِ آزادی پراداکاروں کی جانب سے قوم کو مبارکباد
?️ 14 اگست 2021کراچی (سچ خبریں) یومِ آزادی کے موقع پر پاکستانی اداکاروں نے بھی
اگست
بیروت کا انسانی طوفان
?️ 24 فروری 2025 سچ خبریں: عرب دنیا کے معروف تجزیہ نگار اور رائی الیوم
فروری
صیہونی معاشرے میں تشدد، قتل اور بے چینی کی صورتحال؛صیہونی تجزیہ کار کی زبانی
?️ 12 جون 2025 سچ خبریں:صیہونی تجزیہ کار نے اپنی تحریر میں اعتراف کیا کہ
جون
پینٹاگون کی نظر میں یوکرین کی جنگ کیسے ختم ہوگی؟
?️ 7 ستمبر 2024سچ خبریں: امریکی وزیر دفاع لوئڈ آسٹن نے کہا ہے کہ یوکرین
ستمبر
ترکی کے خلاف امریکی انسانی حقوق کی رپورٹ پر آنکارا کا ردعمل
?️ 26 مارچ 2023سچ خبریں:ترکی کی وزارت خارجہ نے 2022 میں امریکی انسانی حقوق کی
مارچ
جھوٹ بولنے، مالی بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے الزام میں امریکی نمائندہ گرفتار
?️ 11 مئی 2023سچ خبریں:امریکی کانگریس کے ریپبلکن نمائندے جارج سینٹوس، جن کے جھوٹ پہلے
مئی
ڈسکہ کا ضمنی انتخاب کے متعلق الیکشن کمیشن کا بڑا فیصلہ سامنے آ گیا
?️ 25 فروری 2021اسلام آباد(سچ خبریں) این اے 75 ڈسکہ میں پولنگ بیگز کی گمشدگی
فروری