سچ خبریں:اسرائیلی حکومت، جو حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے کے باوجود اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکی، اب امید کر رہی ہے کہ ٹرمپ کی آمد کے ساتھ ہی حماس کے رہنماؤں کو دوحہ سے نکالنے کی راہ ہموار ہوگی۔
نیتن یاہو کا حماس کے رہنماؤں کو نقصان پہنچانے کا یہ نیا فیصلہ اس کی بڑی ناکامی کی عکاسی کرتا ہےبی بی کی ٹیم کی توقعات کے برعکس، حماس ایک منظم تنظیم ہے جو اپنے اہم رہنماؤں کی شہادت کے باوجود مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا قطر میں حماس کے دفاتر بند ہونے والے ہیں؟
اسی بنیاد پر، امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایک مشترکہ منصوبے کے تحت دوحہ میں حماس کے دفتر کو بند کرنے اور اس کے رہنماؤں کو وہاں سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
امریکی سینیٹ کے چودہ اراکین نے وزارت خارجہ کو خط لکھا ہے کہ واشنگٹن قطر پر حماس کے دفتر کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔
ایک امریکی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ اب جبکہ حماس نے جنگ بندی اور اسیران کی رہائی کی آخری پیشکش کو بھی مسترد کر دیا ہے، قطر میں ان کی موجودگی ناقابل قبول ہے۔
تاہم، یہی امریکی حکومت تھی جس نے 2012 میں اوباما کے دور میں قطر سے درخواست کی تھی کہ وہ حماس کے رہنماؤں کو میزبانی فراہم کرے۔
سی این این کے مطابق، ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ ترکی کو حماس کے رہنماؤں کے لیے ممکنہ منزل کے طور پر پیش کیا گیا تھا، مگر جلد ہی یہ تجویز ترک کر دی گئی۔
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان، ماجد بن محمد الانصاری، نے حماس کے رہنماؤں کو قطر سے نکالنے کی خبروں کی تردید کی ہے، لیکن اس کے باوجود، پس پردہ امریکی اور اسرائیلی دباؤ دوحہ اور حماس پر مسلسل قائم ہے۔
الانصاری کا کہنا ہے کہ دوحہ میں حماس کے دفتر کا مقصد فریقین کے درمیان رابطے کا ایک چینل فراہم کرنا ہے۔
ایک امریکی سفارتکار نے این بی سی نیوز کو بتایا کہ قطر، حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی کوششوں میں ناکامی سے مایوس ہو چکا ہے۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ قطر نے میزبان اور ثالث کی حیثیت سے یہ بات سمجھ لی ہے کہ نیتن یاہو مذاکرات کی بجائے اپنی شرائط کو مسلط کرنا چاہتا ہے، اور بغیر کسی رعایت کے اسرائیلی اسیران کی رہائی چاہتا ہے۔ آنتھونی بلنکن اپنی آخری مدت میں بطور امریکی وزیر خارجہ اسرائیلی اسیران کی رہائی کو اپنے نام سے منسوب کرنے کے خواہاں ہیں۔
اخراج کے منصوبے کی وجوہات
ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد بھی بنیامین نیتن یاہو اور اس کی فوج اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہیں اور اب بھی کمزوری اور بے یقینی کا شکار ہیں۔
صہیونی حکام نے متعدد بار حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد حماس ٹوٹ جائے گی، مگر یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا، اسی طرح سید حسن نصراللہ اور ہاشم صفی الدین کی شہادت بھی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو روکنے میں ناکام رہی۔
گزشتہ ہفتے، صہیونی حکومت نے جنگی حالات میں تبدیلی کے لیے کچھ نئے اقدامات کیے، جن میں وزارت دفاع کو سخت گیر سیاستدان اسرائیل کاتس کے حوالے کرنا بھی شامل تھا، اگرچہ وہ جنگی امور کا تجربہ نہیں رکھتے۔
صہیونی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 69 سالہ کاتس جنگی آپریشنز کا اصل نگران نہیں ہوگا بلکہ وہ نتانیاہو کی پالیسیوں کی پیروی کریں گے۔
دوسری طرف، ٹرمپ کی صدارت میں امریکی ریپبلکنز اور خود ٹرمپ قطر کی سرگرمیوں کو پسند نہیں کرتے اور قطر سے فاصلہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
ان کا مقصد قطر سے تعلقات کو محدود کر کے حماس کے رہنماؤں کے اثر و رسوخ کو کم کرنا اور ان کی نقل و حرکت کو محدود کرنا ہے۔
پچھلے تجربات کی ناکامی
صہیونی حکومت، حماس کی قیادت کو آہستہ آہستہ ختم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ حماس کے رہنماؤں کو قطر سے نکالنے کا مقصد یہ ہے کہ انہیں ایسے ممالک میں بھیجا جائے جہاں اسرائیل اور امریکہ کا کنٹرول ہو، جیسے کہ افریقہ کے ممالک۔ لیکن، اس منصوبے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ حماس کے رہنماؤں کو کہیں بھی بھیج دیا جائے، فلسطینی عوام کی جائز اور تاریخی مطالبات کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: قطر سے حماس رہنماؤں کے اخراج کا امریکی دعویٰ؛حماس کا ردعمل
اسرائیل نے طاقت کے ذریعے حماس کو کچلنے کی متعدد بار کوشش کی ہے، لیکن ہر بار اس کے منصوبے ناکام ہوئے ہیں اور یہ نیا منصوبہ بھی انہی ناکام تجربات کا حصہ ثابت ہو سکتا ہے۔