سچ خبریں:فوجی، سیکیورٹی، اور سیاسی ماہرین کے مطابق، موجودہ جنگی حالات میں وعدہ صادق 3 ایران کے لیے ایک نادر موقع ہے کہ وہ مزاحمتی قوتوں اور صہیونی ریاست کے درمیان طاقت کے توازن کو دنیا کے سامنے واضح کرے۔
جنگی اکائیوں کو درست کرنے کی ضرورت
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایران یہ کارروائی نہ کرے تو صہیونی ریاست اسے ایران کی کمزوری سمجھے گی، جس سے صہیونی حملوں کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے، اس کے نتیجے میں ایران کے فوجی، جوہری، اور اقتصادی بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنائے جانے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: وعدے صادق 2 کی رپورٹنگ کرنے پر امریکی صحافی گرفتار
صہیونی خطرات
صہیونی وزیراعظم، وزیر جنگ، اور وزیر خارجہ بارہا ایران کے جوہری اور فوجی تنصیبات پر حملے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ مخالفین یہ ضمانت نہیں دے سکتے کہ اگر ایران یہ حملہ ترک کرے تو صہیونی ریاست بھی اپنے منصوبے ترک کر دے گی۔
آیت اللہ خامنہ ای کا بیان
آیت اللہ خامنہ ای نے صہیونی ریاست کی غلط حکمت عملی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صہیونیوں کی شرارت کو نہ بڑا بنایا جائے، نہ کم سمجھا جائے، ہمیں ان کے حساب کتاب کو درست کرنا ہوگا تاکہ وہ ایران کی حقیقت کو سمجھ سکیں۔
فیصلہ سازی کی ذمہ داری
آیت اللہ خامنہ ای نے واضح کیا کہ ایران کا ردعمل اور حکمت عملی کا تعین حکومت کی ذمہ داری ہے، اور انہیں قومی مفاد میں بہترین فیصلہ لینا ہوگا۔
وعدہ صادق 3 ؛ایران کی حکمت عملی اور صہیونی ریاست کے حسابات
ایران کو اس وقت دو مختلف حکمت عملیوں کے درمیان انتخاب کا سامنا ہے:
پہلی حکمت عملی: تحمل اور عدم ردعمل
کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ صہیونی ریاست کی حالیہ کارروائیاں محض داخلی سیاست میں نتنیاہو کی ساکھ بحال کرنے کی کوشش ہیں، خاص طور پر وعدہ صادق 2 کے بعد۔
یہ حلقے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایران ردعمل نہ دے تاکہ تنازع بڑھنے سے بچا جا سکے اور صہیونی ریاست پرامن حل کی جانب مائل ہو جائے۔
دوسری حکمت عملی: فیصلہ کن جواب
دوسری رائے یہ ہے کہ صہیونی ریاست کا ایران کی فضائی حدود اور دارالحکومت پر حملہ ناقابل قبول ہے، کیونکہ یہ پہلی بار ہے کہ انہوں نے کھلے عام اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت، وعدہ صادق 3 ایک مناسب موقع ہے:
1. طاقت کا توازن بدلنے کے لیے۔
2. مستقبل کی صہیونی جارحیت کو روکنے کے لیے ایران کی بازدار صلاحیت کو مضبوط کرنے کے لیے۔
آیت اللہ خامنہ ای کی بصیرت
آیت اللہ خامنہ ای نے واضح کیا کہ صہیونی ریاست کی ایران سے متعلق محاسباتی غلطیوں کو درست کرنا ضروری ہے،انہوں نے کہا کہ ایران کی طاقت اور ارادے کو دشمن کے ذہن میں واضح کرنا اہم ہے تاکہ وہ ایران کے خلاف جارحیت کے خطرات کو سمجھ سکیں۔
اکائیوں کی جنگ
عملی طور پر، وعدہ صادق 3 ایران کی طاقت اور ارادے کا پیغام دینے کا بہترین موقع ہو سکتا ہے۔
1. اگر ایران جواب نہ دے تو صہیونی ریاست اسے کمزوری کے طور پر دیکھ سکتی ہے، جو مزید حملوں کی راہ ہموار کرے گی۔
2. اگر ایران بڑے پیمانے پر جواب دے اور صہیونی ریاست کو بھاری نقصان پہنچائے، تو تل ابیب کو ایران کی طاقت کا اندازہ ہو گا اور ان کے حملوں میں کمی آ سکتی ہے۔
بی عملی یا فیصلہ کن جواب؟ آیت اللہ خامنہ ای کے خطاب پر عملدرآمد کا امتحان
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کے خطاب کے تحت مخاطب ہونے والے ذمہ داران، پہلی تحلیل کے مطابق وہی روایتی حکمت عملی اپناتے ہیں جو شہید اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اختیار کی گئی تھی، یا اس سے ہٹ کر کوئی نیا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
اگر وہ دوبارہ بی عملی اور عدم جواب کا راستہ اپناتے ہیں تو انہیں یہ وضاحت دینی ہوگی کہ اس رویے کے ذریعے وہ کیسے دشمن کی جنگی اکائی کو توڑ سکتے ہیں اور دشمن کو ایران کی طاقت، عوام کی ارادے اور تخلیقی صلاحیت کا احساس کیسے دلائیں گے؟
یہ واضح ہے کہ بی عملی اور عدم جواب نہ صرف دشمن کی غلط فہمیوں کو دور نہیں کرے گا بلکہ اس کے اس تصور کو تقویت دے گا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جارحیت اور اس کے سرخ لکیروں کی خلاف ورزی کا کوئی جواب نہیں دیا جائے گا۔
تکرار کا خطرہ
اگر پچھلی حکمت عملی کو دہرایا گیا، تو اس کے نتائج بھی ویسے ہی ہو سکتے ہیں جیسے پہلے دیکھنے میں آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسے واقعات، جیسے سید حسن نصراللہ کا قتل، دوبارہ پیش آ سکتے ہیں۔
درست فیصلے کی ضرورت
تاہم، اگر ایرانی حکام موجودہ حالات کا صحیح تجزیہ اور ملک و ملت کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے درست فیصلہ کریں، تو اس کا نتیجہ دشمن کی محاسباتی غلطیوں کو دور کرنے اور ایرانی عوام کی طاقت و صلاحیت کا واضح پیغام دینے کی صورت میں سامنے آئے گا۔
مزید جرأت کا خطرہ
یہ بات بھی اہم ہے کہ ماضی میں انجام دی گئی وعدہ صادق نامی دو کارروائیاں دشمن کی محاسباتی غلطیوں کو مکمل طور پر دور کرنے میں ناکام رہی ہیں، جس کے باعث وہ مزید گستاخ اور جارح بن گیا ہے۔
مزید پڑھیں: ایرانیوں کو اسرائیل کا حملہ کیسا لگا؟ برطانوی قلمکار
لہٰذا، ضروری ہے کہ حالیہ صہیونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر فیصلہ اور حکمت عملی میں اس پہلو کو بھی مدنظر رکھا جائے، تاکہ دشمن کی شرارت کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے اور ایران کی طاقت و ارادہ دنیا کے سامنے مزید نمایاں ہو۔