(سچ خبریں) سماجی انصاف کی کیسی ستم ظریفی ہے کہ روس، امریکا، ناٹو اور پاکستان جیسے ممالک جو مختلف اوقات میں طالبان کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں انہوں نے ماسکو میں ہونے والی کانفرنس کے ایک اعلامیہ میں افغانستان کے بارے میں بائیڈن کی شاٹ مون حکمت عملی کی تائید کرتے ہوئے بیانیہ جاری کیا ہے کہ جمہوری نظام کی خاطر طالبان کو اس بہار کے موسم میں جارحانہ کاروائیاں ترک کرکے امن معاہدہ تشکیل دینے کی خاطر بات چیت کی راہ اپنانی چاہیے، لیکن زمینی حقائق کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہوری نظام کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ طالبان کو عسکری قوت کے اعتبار سے بالاتر مقام حاصل ہے جس کی وجہ سے انہیں افغانستان کے 80 فی صد علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے اور انہیں اُمید ہے کہ یکم مئی 2021 تک قابض فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی اور افغانستان کے لیے اسلامی امارات بننے کی راہیں ہموار ہو جائیں گی جس کی خاطر وہ گزشتہ چار دہائیوں سے میدان عمل میں ہیں اور ان کے عزم میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی ہے۔ 2003ء میں ملا عمر نے اس عزم کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے اپنی آزادی کے لیے آخری دم تک جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہماری قومی اقدار اور نظریہ حیات، قابض قوتوں کے جمہوری نظام پر مبنی ایجنڈا قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتے، ہم جنگ جاری رکھیں گے اور ان شااللہ اپنی آزادی حاصل کرکے رہیں گے یعنی افغانستان کو اسلامی امارات بنائیں گے جو تمام ہمسایہ اور دیگر ممالک کے لیے قابل قبول ہوگی، پاکستان نے اس موقع پر ہمارا ساتھ نہیں دیا لیکن اس کے باوجود اپنے کل وقتی مفادات کے تحفظ کی خاطر ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ملا عمر کا یہ اعلان، طالبان کی تحریک کا رہنما اصول ہے جو متحارب نظریے کی گرہیں کھولتا ہے اور طاقت کا توازن متعین کرتا ہے جس کی وجہ سے طالبان کو افغانستان کے زیادہ تر علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے جبکہ مخالف طاقتوں کا کنٹرول صرف شہروں اور قصبوں تک محدود ہے، طالبان انہیں بآسانی شکست دے سکتے ہیں اور اشرف غنی کی حکومت کا کوئی بھی حمایتی طالبان کے سامنے کھڑا ہونے کی جرأت نہیں کر سکتا۔
امریکا کے لیے افغانستان سے نکلنا آسان فیصلہ نہیں ہے کیونکہ دہائیوں کی مداخلت کے باوجود وہاں پر حکمرانی نہ صرف کمزور ہے بلکہ بدتر انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔
اگر فوجوں کے انخلا کو موخر کرنے کا مقصد محض سیاسی طور پر توجہ ہٹانا مقصود ہے تو اس طرح امریکا جنگ کی ایک ایسی دلدل میں پھنس جائے گا جو وہ کبھی جیت نہیں سکتا اور اگر وہ بدستور افغانستان میں رہنے کا فیصلہ کرے گا تو اس طرح اسے مزید بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
یکم مئی2021ء کو جو بھی صورت حال ہو وہ ایک اہم موڑ ثابت ہوگی جب طالبان کی مزاحمت میں شدت آئے گی اور وہ بتدریج داخلی علاقوں پر اپنا کنٹرول مضبوط بنائیں گے اور اشرف غنی کی حکومت کے زیر کنٹرول شہروں اور قصبوں کا گھیرائو کر لیں گے، اور اشرف غنی کی حکومت کے کسی بھی مددگار میں اتنی جرت نہیں ہو گی کہ وہ مداخلت کرسکے۔
اس طرح افغانستان میں اسلامی امارات قائم ہو جائے گی جس کی بنیاد عالم اسلام کے تین بڑے اہم ممالک ہوں گے مثلاً انقلابی ایران جہادی افغانستان اور اسلامی پاکستان، یہی وہ ابھرتی ہوئی حقیقت ہے جس سے سیکولر دنیا کے دل و دماغ پر خوف طاری ہے، اور اس کی مخالفت میں تمام حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
آج تاریخ اپنے آپ کو دہراتی نظر آتی ہے، مثلاً تینتیس سال پہلے 1988ء میں حالات کے رخ بدلے اور ایک نئے نظام کا سورج طلوع ہوا جو طالبان تحریک کی مزاحمتی قوت کا مرہون منت تھا جس نے صرف چار دہائیوں کے مختصر عرصے میں دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کو شکست دی جن میں دو عالمی سپر طاقتیں اور یورپین یونین اور بھارت جیسی علاقائی قوتیں شامل تھیں۔
حالات سے تو ایسے لگتا ہیکہ طالبان ہی وہ قوت ہیں جو افغانستان میں قیام امن کی شرائط کا تعین کریں گے، لیکن اب تمام دنیا کی نظریں یکم مئی 2021 پر مرکوز ہیں کہ غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو طالبان تمام ملک پر دسترس حاصل کرلیں گے اور جو علاقے پہلے ہی ان کے کنٹرول میں ہیں وہاں اپنی حکمرانی قائم کرتے ہوئے افغان حکومت کو محاصرے میں لیکر شہروں اور قصبوں کی طرف دھکیل دیں گے اور بالآخر ملک کے طول و عرض کے علاقے طالبان کے کنٹرول میں ہوں گے۔