(سچ خبریں) ملک میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز اور اموات کی تعداد میں تشویشناک اضافے کی صورت حال کے پیش نظر وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے (جو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے چیئرمین بھی ہیں) قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد میں سنجیدگی دکھائے تاکہ بڑے شہر بند کرنے جیسے اقدامات سے بچا جا سکے۔
یہ اپیل بدھ 21؍اپریل کو ایسے منظرنامے میں سامنے آئی جب وطن عزیز میں کورونا وائرس سے ایک ہی دن میں جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 148ہوگئی۔
بدھ کا دن 18؍اپریل کی ریکارڈ اموات 149کے بعد سال کا دوسرا بدترین دن رہا جس میں جاں بحق ہونے والوں میں سے 103کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ 46اموات صرف لاہور میں ہوئیں۔
ملک بھر میں مثبت کیسز کی شرح 11.62فیصد ہوگئی، لاہور میں یہ شرح 18، حیدرآباد میں14، کراچی میں 13فیصد ہے، کئی شہروں میں 80فیصد سے زیادہ وینٹی لیٹر زیر استعمال ہیں اور پہلی لہر کے مقابلے میں 30فیصد سے زائد مریض آکسیجن پر ہیں۔
بدھ کے اعداد و شمار کے مطابق 24گھنٹوں میں مزید 5499نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔ اس وقت ملک میں کورونا کے 83ہزار 162فعال کیسز ہیں جن میں 4ہزار 528مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر کانیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے اجلاس کے بعد کہنا تھا کہ حفاظتی تدابیر پر گزشتہ برس کی طرح عمل ہوتا نظر نہیں آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی شہروں میں وینٹی لیٹرز کا استعمال 80فیصد سے تجاوز کر گیا۔
ملک میں بنائی جانے والی آکسیجن لامحدود نہیں اس لئے اس باب میں خدشات سے صرف نظر ممکن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صورت حال کے جائزے کے بعد NCOCنے کئی فیصلے کئے ہیں جن پر صوبوں کو اعتماد میں لے کر جمعہ کو اعلان کیا جائے گا۔
ادھر سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے بیان سے واضح ہے کہ کراچی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق 50فیصد نمونوں میں برطانیہ والے وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جو تیزی سے پھیلتا ہے اور زیادہ خطرناک بھی ہے، سندھ سے پہلے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اس وائرس سے متعدد اموات ہو چکی ہیں۔
یہ انکشافات ایسے وقت سامنے آئے جب عیدالفطر کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ شاپنگ مراکزپر رش بڑھنے کے امکان ہیں، اس باب میں دکانداروں اور خریداروں کی طرف سے پابندیوں کا نظرانداز کیا جانا خارج ازامکان نہیں، کئی ممالک سے ایسی اطلاعات بھی آتی رہی ہیں کہ لوگوں نے پابندیوں سے تنگ آکر احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
یہ صورت حال متقاضی ہے اس بات کی کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے حتی الامکان ایسی احتیاطی حکمت عملی وضع کی جائے جس میں بھیڑ بھاڑ سے بچتے ہوئے خریداری کرنا، روزی کمانا اور دوسرے کام کاج ممکن ہوں، لیکن جہاں انسانی جانوں کے زیاں کے خطرات زیادہ ہوں وہاں پابندیوں کے سوا چارہ نہیں۔
یہ بات پیش نظر رکھنے کی ہے کہ کورونا کیسز اور اموات کی شرح میں اضافہ اس حقیقت کے باوجود ہوا کہ ملک بھر میں لوگوں کو ویکسین کے ٹیکے لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
ویکسین کے باعث وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافے پر کسی نہ کسی حد تک بند باندھا گیا، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عمل تیز تر کیا جائے۔
بدھ کے روز چین سے کورونا ویکسین کی پانچ لاکھ خوراکیں پاکستان پہنچ چکی ہیں اور آئندہ چند دنوں میں مزید 15لاکھ خوراکیں پہنچ جائیں گی۔
توقع کی جانی چاہئے کہ ویکسی نیشن کی رفتار بڑھانے، ایس او پیز پر عمل کرنے اور دیگر احتیاطی تدابیر سے کورونا چیلنج پر قابو پالیا جائے گا اور ملکی معیشت و سلامتی کے تقاضوں کو بھی کامیابی سے پورا کیا جاسکے گا۔