سچ خبریں: حال ہی میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے اپنے منصب پر 100 دن مکمل کیے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں ان سے منسلک ایک تنازعہ زیر بحث ہے۔
یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب مریم نواز کی بطور وزیراعلیٰ کارکردگی کے بارے میں اخبارات میں تشہیری مہم چلنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی متعدد فنکاروں اور انفلوئنسرز کی جانب سے ان کے حق میں ویڈیوز اور وی لاگز شائع ہوئے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ تشہیری ویڈیوز پنجاب حکومت نے بھاری رقم کے عوض بنوائی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کا خلاف توقع فیصلہ
سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے ان فنکاروں اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز پر تنقید کی ہے، اور ان کے ڈراموں کا بائیکاٹ کرنے اور انہیں ان فالو کرنے جیسے مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں انٹرٹینمنٹ، میڈیا اور سیاست کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ کروڑوں فالوورز رکھنے والے اداکار اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز اپنے فالوورز پر نمایاں اثر رکھتے ہیں اور کسی بھی سیاسی بیانیے کی تشکیل اور رائے عامہ کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
انسٹاگرام، ٹوئٹر، ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز نے ان مشہور شخصیات کو روایتی میڈیا گیٹ کیپرز کو بائی پاس کر کے عوام سے براہ راست جڑنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہی براہ راست اور دوستانہ تعلق فالوورز کے ساتھ اعتماد کو بڑھاتا ہے اور ان کے تشہیری پیغامات کو زیادہ موثر بناتا ہے۔
تاہم، فنکاروں اور انفلوئنسرز کے لیے سوشل میڈیا پر کسی بھی جماعت کے سیاسی بیانیے کی حمایت یا مخالفت کرنا آسان نہیں ہوتا، اور انہیں مثبت تبصروں سے لے کر شدید تنقید تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ماضی میں کئی فنکاروں کو اپنی مکمل سوشل میڈیا پروفائلز ہٹانی پڑی ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے اہم بات شفافیت ہے، یعنی ان شخصیات کے لیے اپنے فالوورز کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آیا یہ ویڈیوز پیڈ کانٹینٹ ہیں یا نہیں۔ اس پس منظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی پنجاب حکومت نے فنکاروں اور انفلوئنسرز کو اس تشہیری مہم کے لیے استعمال کیا، یا یہ ان کی ذاتی رائے تھی؟
فنکار اور انفلوئنسرز کون ہیں اور ان کی ویڈیوز میں کیا شامل ہے؟
پنجاب حکومت کی تشہیری مہم میں شامل ہونے والوں میں نمایاں نام اداکارہ یاسر حسین، عائشہ عمر، صبور علی، صنم سعید، عروہ حسین، میکال ذوالفقار، صبا فیصل، آئمہ بیگ، اور وی لاگر جنید اکرم شامل ہیں۔ یہ سب گزشتہ 100 دنوں کے دوران پنجاب حکومت کے مختلف اقدامات کی تعریف کرتے نظر آئے ہیں۔
اداکارہ سجل علی نے پنجاب میں تعلیم کے شعبے میں اصلاحات جیسے پرائمری سے لے کر ڈیجیٹل اسکلز سکھانے کی تعریف کی اور کہا کہ یہ اصلاحات پورے پاکستان میں ضروری ہیں۔ عائشہ عمر نے مریم نواز کے اقلیتوں کی حفاظت اور درخت لگانے کے اقدامات کی تعریف کی۔
عروہ حسین نے خواتین کی حفاظت کے لیے شروع کیے گئے منصوبوں کی تعریف کی جبکہ صنم سعید نے صحت کے شعبے میں لائی گئی اصلاحات جیسے مفت ادویات، ایئر ایمبولینس، اور ٹراما سینٹرز کو سراہا۔
یاسر حسین نے صاف ستھرا پنجاب مہم کی حمایت کی اور میکال ذوالفقار نے 64 ارب کے کسان پیکج، کسان کارڈ، اور سولر پینلز کے متعلق معلومات فراہم کیں۔
دیگر فنکاروں کے برعکس، عائشہ عمر، یاسر حسین، اور میکال ذوالفقار نے اپنی ویڈیوز پر کمنٹس کو آف نہیں کیا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایسی اشتہاری مہمات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ ماضی کی حکومتیں بھی عوام تک پیغام پہنچانے کے لیے انفلوئنسرز کا استعمال کرتی رہی ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا سیل قائم کیے تھے، جہاں انٹرن شپ اور معاوضے کی بنیاد پر ‘سوشل میڈیا انفلوئنسرز’ کو بھرتی کیا جاتا تھا۔
اداکارہ صبا فیصل بھی ان فنکاروں میں شامل ہیں جنہوں نے پنجاب حکومت کی کارکردگی سے متعلق ویڈیوز بنائی ہیں۔ اپنی ویڈیو میں، صبا فیصل کسان کارڈ اور زرعی اصلاحات کے بارے میں بتاتی ہیں اور مریم نواز کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔
صبا فیصل نے تصدیق کی کہ یہ ویڈیوز حکومت پنجاب کی کارکردگی کی ’پیڈ پروموشن‘ کا حصہ تھیں۔ ان کا کہنا تھا، "میں اکثر پیڈ شوٹس کرتی ہوں۔ اس دن بھی میں شوٹ پر تھی جب پی آر کمپنی نے کہا کہ وقت کم ہے اور 10 بجے تک ویڈیو بنانی ہے۔” صبا نے کہا، "انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ جلدی سے یہ ویڈیو بنا دیں گی؟ میں نے کہا، بھیجیں، میں دیکھتی ہوں۔”
انہوں نے بتایا کہ، "یہ ایک بہت لمبا پیراگراف تھا، جسے دیکھ کر میں نے کہا کہ مجھے اس کے لیے تیاری کی ضرورت ہوگی۔ تو انہوں نے کہا کہ اچھا، آپ صرف آخری زراعت والا حصہ کر دیں۔”
صبا فیصل نے مزید کہا، "یوں میں نے وہ ویڈیو پیغام ریکارڈ کر دیا۔ اس سے پہلے بھی میں نے مریم نواز کے لیے ایک ویڈیو بنائی تھی، لیکن مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس ویڈیو پر اتنا شور کیوں مچا ہے۔”
کمنٹس آف کرنے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پی آر کمپنی نے ہی کمنٹس آف کرنے کا کہا تھا۔ "اکثر پیڈ پروموشنز میں ہم سے کمنٹس آف کرنے کا کہا جاتا ہے کیونکہ سب ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑے ہوتے ہیں، اس لیے ہم کمنٹس بند کر دیتے ہیں۔ انہوں نے بھی کہا، تو میں نے بند کر دیے۔”
صبا نے بتایا کہ اس کے بعد وہ شوٹ میں مصروف ہو گئیں۔ "رات کو جب گھر آ کر دیکھا تو میری باقی ویڈیوز کے کمنٹس سیکشن صارفین کی گالیوں سے بھرے پڑے تھے۔ مجھے گالیاں دی گئیں کہ پیسے لے کر یہ کرتی ہے، وہ کرتی ہے وغیرہ۔”
صبا فیصل کا کہنا ہے کہ "ہم آرٹسٹ لوگ ہیں اور میں خود کو بہت نیوٹرل سمجھتی ہوں۔ آرٹسٹ کو نیوٹرل ہونا چاہیے کیونکہ ہمارا فن سب کے لیے ہوتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "میں نے 11 سال پی ٹی وی پر خبرنامہ پڑھا اور اس دوران تین مرتبہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور تین مرتبہ مسلم لیگ نواز کی حکومت آئی۔
اگر ایک دن میں نواز شریف یا بینظیر کے خلاف بول رہی ہوتی تو اگلی بار ان کے حق میں بولتی تھی کیونکہ بطور نیوز کاسٹر ہمیں اپنے جذبات دکھانے کی اجازت نہیں تھی، اسی لیے ہم نے بہت نیوٹرل رہ کر کام کیا۔”
صبا فیصل نے وضاحت کی کہ "میں پیڈ پروموشنز بھی بہت نیوٹرل رہ کر کرتی ہوں، اس وقت میں یہ ویڈیو نہیں بنانا چاہتی تھی، لیکن پی آر کمپنی نے بہت زور دیا، اس سے پہلے میں نے صبور علی اور میکال ذوالفقار کی ویڈیوز بھی دیکھی تھیں، لہٰذا میں نے سوچا کہ اگر پنجاب میں اس طرح کے کام ہو رہے ہیں تو انہیں سپورٹ کرنا چاہیے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں اس کام کا معاوضہ مل چکا ہے یا ملنے والا ہے؟ تو صبا فیصل نے کہا، "میں یہ نہیں بتا سکتی مگر یہ پیڈ کانٹینٹ تھا اور میں نے اسے باقی پیڈ کانٹینٹ کی طرح لیا۔”
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے ویڈیو بناتے وقت منفی ردعمل کے بارے میں نہیں سوچا؟ صبا نے جواب دیا، "میں نے واقعی نہیں سوچا۔”
صبا فیصل نے بتایا کہ ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے کے بعد جس ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، اس کے باعث انہیں وہ ویڈیو ڈیلیٹ کرنا پڑی۔ "میں نے ویڈیو ڈیلیٹ کر دی تھی لیکن جنہوں نے مجھ سے وہ ویڈیو بنوائی تھی، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابھی پیسے نہیں ملے۔ اگر آپ ویڈیو ڈیلیٹ کر دیں گی تو ہمارے پیسے رک جائیں گے، لہٰذا میں نے پھر اسے پوسٹ کر دیا۔”
پنجاب حکومت نے مریم نواز کی 100 روزہ کارکردگی کو اجاگر کرنے کے لیے فنکاروں کا سہارا کیوں لیا اور اس حکمت عملی کے پیچھے کیا سوچ تھی؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پنجاب کی وزیر اطلاعات اعظمیٰ بخاری نے اس بات کی تردید کی کہ یہ پیڈ کونٹینٹ تھا اور حکومت نے فنکاروں کو اس تشہیری مہم کے لیے چنا۔ انہوں نے کہا، "فنکاروں نے خود سے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ جو لوگ پیڈ کونٹینٹ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں، انہیں پہلے تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ بھی پیڈ کونٹینٹ کرواتے رہے ہیں۔ اگر ان کے لیے اداکار بولیں تو انڈورسمنٹ ہے اور کسی دوسرے کی تعریف کریں تو پیڈ ہے؟”
اعظمیٰ بخاری نے وضاحت کی کہ "حکومت نے ان اداکاروں یا سوشل میڈیا انفلوئنسرز سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی انہیں کوئی معاوضہ دیا۔ انہوں نے جو دیکھا، اس پر ویڈیوز بنائیں۔”
انہوں نے مزید کہا، "فنکار چاہے کراچی یا کوئٹہ میں رہتے ہوں، آخر لاہور آتے ہیں اور پنجاب حکومت کی کارکردگی دیکھتے ہیں۔ اگر وہ صحت کے شعبے میں آنے والی اصلاحات، جیسے ایئر ایمبولینس اور فیلڈ ہسپتالوں کی تعریف کر رہے ہیں تو یہ بالکل ٹھیک ہے، کیونکہ سب کچھ نظر آ رہا ہے۔”
اعظمیٰ بخاری نے مزید بتایا کہ "اس سے قبل پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی فنکار ان کی کارکردگی کے متعلق رائے دیتے رہے ہیں۔”
اس حکمت عملی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، اعظمیٰ بخاری نے کہا کہ فنکار اور انفلوئنسرز عوام پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے مثبت پیغام پہنچانا مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور ماضی میں بھی حکومتیں اپنی کارکردگی کو اجاگر کرنے کے لیے ایسے طریقے استعمال کرتی رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر پنجاب حکومت کی کارکردگی سے متعلق ویڈیوز پر ہونے والی تنقید پر بات کرتے ہوئے اعظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ "تنقید وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے وزیراعظم صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے ٹک ٹاکروں سے ملتے تھے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "جو لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اداکاروں نے پنجاب حکومت کی تعریف کیوں کی، انہیں سمجھنا چاہیے کہ اداکار بھی اسی ملک کا حصہ ہیں۔ اگر انہیں کچھ بہتر نظر آتا ہے تو انہیں اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق ہے۔”
اعظمیٰ بخاری نے نشاندہی کی کہ یہ وہی فنکار ہیں جو پہلے عمران خان کی حکومت کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ "اگر وہ پی ٹی آئی کے بارے میں بات کریں تو سب کو اچھی بات لگتی ہے، لیکن جب وہ پنجاب حکومت کی بات کرتے ہیں تو اس بار اتنی تکلیف کیوں ہے؟”
سوشل میڈیا پر سخت ردعمل کے بعد جن اداکاروں یا وی لاگروں کو اپنی ویڈیوز ڈیلیٹ کرنا پڑیں، کمنٹس بند کرنے پڑے، یا جنہوں نے شروع سے ہی ایسی ویڈیوز کا حصہ بننے سے انکار کیا، اس پر اعظمیٰ بخاری نے تنقید کو ‘فاشسٹ رویہ’ قرار دیا۔
انہوں نے کہا، "اگر کوئی پی ٹی آئی کی تعریف کرے تو اسے بات کرنے اور ملک میں رہنے کا حق ہے، لیکن دوسری صورت میں انہیں بدنام کیا جاتا ہے، ان پر تنقید کی جاتی ہے، اور ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے جس سے ان کا کام اور وہ خود متاثر ہوتے ہیں۔ اس طرح کے رویے سے معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔”
سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں جن میں مختلف فنکار اور انفلوئنسرز یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پنجاب حکومت کے حکام نے انہیں مریم نواز کی کارکردگی کے بارے میں تعریفی ویڈیوز بنانے کے لیے پانچ سے دس لاکھ روپے معاوضے کی پیشکش کی تھی۔
ان ویڈیوز میں، مبینہ طور پر آفر ٹھکرانے والے اداکار اور وی لاگرز، آفر قبول کرنے والوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہیں "پیسے کے لیے بکنے والے فنکار” قرار دیتے ہیں۔
ایک وی لاگر، حمزہ بھٹی، کا دعویٰ ہے کہ انہیں مسلم لیگ ن کی جانب سے پروموشن کے لیے کال موصول ہوئی جس میں کمنٹس بند کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔ حمزہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس پیڈ مہم کا حصہ بننے سے انکار کیا اور اپنے لنکڈ ان پر پوسٹ کیا کہ "میں وہ ہوں جو بکا نہیں۔
تاہم، بی بی سی کے رابطہ کرنے پر انہوں نے کسی سوال کا جواب دینے سے معذرت کی اور اب یہ پوسٹ بھی ان کے لنکڈ ان اکاؤنٹ سے ہٹا دی گئی ہے۔
سخت تنقید کے بعد کئی اداکاروں اور وی لاگرز کو اپنی ویڈیوز ڈیلیٹ کرنا پڑی ہیں۔
مسٹا پاکی کے نام سے مشہور سوشل میڈیا انفلوئنسر، بلال حسن، نے اس صورتحال کو "پی آر ڈیزاسٹر” قرار دیا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ "جس نے بھی یہ پینل چنا تھا، اس نے 80 فیصد سلیبریٹیز کراچی کی کیوں چنیں؟ یہ تو بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ جیسا معاملہ ہے۔
بلال نے بتایا کہ وہ بھی ان انفلوئنسرز میں شامل تھے جن سے اس تشہیری مہم کے لیے رابطہ کیا گیا تھا، تاہم انہوں نے اس کا حصہ بننے سے انکار کیا۔
انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں بلال اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ کانٹینٹ کریئیٹرز کو حکومتوں کے ساتھ کام کرنا چاہیے یا نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "اگر میں یہ 100 دنوں والی ویڈیو کر رہا ہوتا تو میں کہتا کیا آپ مجھے دو ہفتے دیں گے کہ میں پورے پنجاب میں گھوم کر ہر طبقے کے عام لوگوں سے مل کر بات کرنا چاہتا ہوں اور اچھا برا سب دکھاؤں گا،اگر آپ نے کوئی اچھا کام کیا ہے تو ہم اسے ضرور ہائی لائٹ کریں گے۔”
اس ویڈیو میں بلال پی آر ایجنسیوں کی شفافیت کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں کہ کیسے ایجنسیاں فنکاروں اور انفلوئنسرز کو آفر دیتے وقت پوری تصویر نہیں دکھاتیں اور بڑی شخصیات کو شامل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں کیونکہ "جتنی مشہور شخصیت، اتنا ہی زیادہ ایجنٹ کا کمیشن۔”
مزید پڑھیں: بیرسٹر سیف نے پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں کے بارے میں مریم نواز کو انہیں کی بات یاد دلا دی
بلال کا کہنا ہے کہ "حکومت کے ساتھ کام ضرور کریں، لیکن اس کا طریقہ ہوتا ہے۔ یہاں آپ ایک سکرپٹ پڑھ رہے ہیں اور کمنٹس ہی آف کر دیے ہیں؟ اس سے بہت برا تاثر ملتا ہے۔”