(سچ خبریں) حال ہی میں سعودی عرب کے ایک وزیر نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے سے خطے میں امن اور خوشحالی آئے گی، لیکن موصوف اس بات کو بھول گئے کہ قرآن میں اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن یہودیوں کو قرار دیا گیا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جس جس نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار کیئے اسے دھوکے کے سوا کچھ نہیں ملا۔
سعودی عرب اگرچہ خفیہ طور پر اسرائیل کے ساتھ کئی برسوں سے تعلقات برقرار کیئے ہوئے ہیں اور وہ سعودی عرب کا اہم دوست بھی مانا جاتا ہے لیکن مسلم امہ کے خوف سے اس نے ان تعلقات کو منظرعام پر نہیں لایا لیکن اب جب دوسرے عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ دوستی کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لینا چاہتے ہیں تو سعودی عرببھی یہ سوچ رہا ہے کہ وہ کہیں اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہ رہ جائے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے جانے والے انٹرویو میں سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے اسرائیل سے معاہدے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے زبردست فوائد حاصل ہوں گے، یہ خطے میں معاشی، معاشرتی اور سلامتی کے نقطہ نظر سے انتہائی مددگار ثابت ہوگا، خطے میں امن اور خوشحالی آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا طویل عرصے سے سعودی عرب کے وژن کا حصہ رہا ہے، خطے کے امن و ترقی کا انحصار بڑی حد تک سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین ممکنہ معاہدہ پر ہے۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین سمیت کئی عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے بعد یہ بیان اس بے چینی کا مظہر ہے کہ سعودی عرب بھی جلد اسرائیل سے تجارتی و سفارتی تعلقات بحال کرنے کی طرف تیزی سے قدم بڑھا رہا ہے۔
امارات اور بحرین کے اسرائیل کی گود میں بیٹھنے سے قبل یہ خبر متواتر آتی رہی تھی کہ عرب ریاستیں جو بظاہر اسرائیل کی مخالف اور فلسطینیوں کی ہم نوا تھیں، خفیہ رابطوں میں اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی معاملات میں عملی تعاون کرتی رہیں، اور اسی تعاون کے نتیجے میں لبنان اور شام میں اسرائیل ایرانی مفادات پر بمباری کرتا رہا اور ایران کی جوہری تنصیبات اسرائیلی حملوں کی زد میں رہیں۔
اس سے قبل اسرائیل عرب تعلقات ایک عرصے تک خفیہ رہے یہ تو 2009ء میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو جب دوبارہ اقتدار میں آیا تو خفیہ تعلقات بطور پالیسی منظر عام آئیں اور دونوں ایک دوسرے سے مختلف نوعیت کے تعاون کرتے رہے بعد میں بڑا قدم اسرائیل نے اس وقت اٹھایا جب انٹرنیشنل رینیوبل انرجی ایجنسی کے ہیڈکوارٹر عرب امارات میں بنانے میں سفارتی مدد کی، لیکن اس کے بدلے ایک شرط یہ رکھی کہ اس کے سفارت کاروں کو ان کے ہیڈکوارٹر میں تسلیم کرنا پڑے گا۔
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود کا حالیہ بیان بدلتے ہوئے سعودی عرب کی پالیسی کا مظہر ہے کیونکہ سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ خفیہ رابطے رکھے ہیں جس کی سرپرستی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کرتے ہیں، جبکہ ان کے والد شاہ سلمان ایک آزاد فلسطینی ریاست کے حمایتی رہے ہیں اور اس کے لیے بولتے رہے ہیں۔
اس قربت میں اضافے اور شدت کی کئی وجوہات ہیں کیونکہ شہزادہ سلمان کے وژن 2030 کا ایک مرکزی پروجیکٹ NEOM ہے جس میں سعودی عرب کے مغربی ساحل پر 500 بلین ڈالر کی لاگت والے میگا سٹی کا قیام مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بہت بڑے اور اہم پروجیکٹ کے لیے سعودی عرب کو مینوفیکچرنگ، بائیو ٹکنالوجی اور سائبر سیکورٹی کے میدانوں میں اسرائیلی ماہرین کی ضرورت پڑے گی، اور پھراس دوران سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نے بارہا اسرائیل کے ساتھ ریاض کے قریبی تعلقات کی وکالت پر مبنی رپوٹیں شائع کرکے عوامی رد عمل کا اندازہ لگانے کی کوشش بھی کی ہے۔
اسی طرح سعودی حکومت کے سرکاری نشریاتی ادارے العربیہ کی انگریزی ویب سائٹ پر ایک اسرائیلی کنسلٹنٹ نیو شاخر نے لکھا تھا کہ میں ایک ایسے مستقبل کی پیش گوئی کر رہا ہوں جس میں خلیجی ممالک کے مابین ایک مشترکہ ہائی ٹیک ایکو سسٹم تشکیل پائے گا، جسے اس خطے کی سیلی کون ویلی کے طور پر جانا جائے گا۔
حالات بتا رہے ہیں کہ معاملات بہت آگے بڑھ چکے ہیں صرف خبر کا انتظار ہے، امریکی سرپرستی میں ایک بڑے عالمی منصوبے کے تحت عالم اسلام کا جغرافیہ ہی نہیں تہذیب اور معاشرت بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دینے کا کھیل جاری ہے، جس کے سیاسی اہداف میں سرفہرست ہدف ناجائز صہیونی ریاست کو پوری مسلم دنیا سے منوانا اور قبلہ اول سے دست بردار کروانا ہے اور بد قسمتی سے ایک آدھ مسلم حکمران کے سوا سب ہی اسلام اور مسلمان کے دشمنوں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آرہے ہیں اور امت مسلمہ ایک طرف کھڑی آنسو بہارہی ہے کیونکہ مسلم عوام اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی اور اپنی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں، حکمرانوں کے برعکس اس خطے اور فلسطین سے متعلق عام مسلمان کا موقف وہی ہے جو جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں اور اسلامی تحریکوں کا ہے۔
فلسطینی عوام اپنے ایمانی جذبے کی بدولت موت سے بے پروا اور اسرائیلی ظلم سے بے خوف ہو کر زندگی گزار رہے ہیں، برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک ریسرچ سینٹر کی تحقیق کے مطابق اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے، 2070 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا، کسی بھی مذہب کے مقابلے میں اسلام تیزی سے پھیلے گا، لیکن اس کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے حکمرانوں کی کمزوری کی وجہ سے اسلام حقیقی طاقت سے محروم ہے، عالم عرب کے پاس مضبوط معیشت ہے لیکن حمیت نظر نہیں آتی، نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ زوال اور پستی کا اندھیرا بڑھتا جارہا ہے۔
فلسطین کا مسئلہ ایک سطح پر مسلمانوں کے قبلہ اوّل کی بازیافت کا مسئلہ ہے، فلسطینیوں کی بقا اسی مسئلے سے متعلق ہے، امت مسلمہ جانتی اور سمجھتی ہے کہ اسرائیل نے اپنے ناجائز قیام کے بعد سے امریکا کی سرپرستی میں فلسطینیوں پر جو ظلم کیا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
ہمارے نزدیک مسجد اقصیٰ نبی کریمؐ کا مقام امامت انبیاء و معراج ہے، اس کی حفاظت امت مسلمہ کا فرض ہے، مسجد اقصٰی مسلمانوں کا قبلہ اول اور نبی کریمؐ کی امانت بھی ہے، اس سے پیچھے ہٹنا خیانت ہوگی۔
ہمارا مرنا جینا اہل فلسطین کے ساتھ ہے، سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین ممکنہ معاہدہ محدود مفادات کے لیے فلسطینی کاز کے ساتھ غداری، دھوکا اور فلسطینیوں کی پیٹھ پر چھرا گھونپنے کے مترادف ہوگا۔
اس معاہدے کے نتیجے میں مستقبل میں اس پورے خطے کے امن کو بھی خطرات لاحق ہوں گے، اور مبصرین اس پس منظر میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کو اسرائیل کے ساتھ مفاہمت سے پہلے پوری امت مسلمہ کو اعتماد میں لینا چاہیے اور فلسطینیوں کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔