(سچ خبریں) امریکا جو دنیا بھر میں دہشت، وحشت اور لوٹ مار مچاکر وہاں کی عوام کا قتل عام کرنے کے بعد ان کا مسیحا بننے کی جھوٹی کوشش میں لگا جاتا ہے اب اسے افغانستان میں اس قدر ذلت آمیز شکست ہوئی ہے کہ وہ اپنی اس ہار اور ذلت کو چھپانے کے لیئے افغانستان سے جاتے جاتے وہاں دہشت پھیلا کے جارہا ہے تاکہ دنیا کو یہ بتا سکے کہ اس کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
افغانستان اس حوالے سے خوش قسمت ملک ہے کہ اس کے ہمسائے میں پاکستان اور ایران موجود ہیں، پاکستان کی طویل ترین سرحد افغانستان کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے اور دونوں طرف پشتون قوم موجود ہے، تاریخی اور ثقافتی طور پر ہم عقیدہ اور ہم زبان ہونا اس کے لیے ہمیشہ فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔
جب سوویت یونین ایک منصوبے کے تحت افغانستان میں داخل ہوا، اس کی منصوبہ بندی لینن کے دور حکومت سے شروع ہوگئی تھی، افغانستان کے حکمران امان اللہ خان اور لینن میں دوستی تھی اور خط و کتابت بھی اس کی دوستی کا حصہ تھی۔
افغانستان میں جب حالات بگڑ گئے تو امیر عبدالرحمن نے سوویت یونین میں پناہ لی، برطانیہ افغانستان میں 1842ء میں داخل ہوچکا تھا اور شاہ شجاع برطانوی فوج کے ہمراہ کوئٹہ سے قندھار ہوتا ہوا کابل میں داخل ہوا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
تاریخ میں پہلی بار برطانوی استعمار کی فوج کابل میں داخل ہوئی اور برطانوی پرچم لہرا دیا، امان اللہ خان کے دور حکومت میں برطانوی فوج کو پشاور کے محاذ پر شکست ہوئی، اس جنگ میں امان اللہ خان شریک تھے اور برطانیہ نے امان اللہ خان کو افغانستان کا بادشاہ تسلیم کرلیا، عبدالرحمن امان اللہ خان کا دادا تھا، عبدالرحمن نے برطانیہ سے تاریخی معاہدہ کیا، یہ معاہدہ ڈیورنڈ لائن کہلایا، اس کے معاہدے کے تحت بعض حصے افغانستان سے جدا کرائے گئے۔
ان میں کشمیر، بلوچستان کے بعض حصے اور صوبہ سرحد کے بعض حصے اس کی دسترس سے نکال کر برطانوی ہند میں شامل کرلیے گئے، جدید افغانستان کا بانی امیر عبدالرحمن تھا جس نے اس کی حد بندی کی، اس طرح کچھ حصے برطانیہ نے ایران سے لے لیے۔
عبدالرحمن کا معاہدہ تاج برطانیہ کے ساتھ ہوا تھا، اس وقت پاکستان نہیں تھا اور نہ برصغیر تقسیم ہوا تھا، بعض قوم پرست ابھی تک ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے بحث کرتے ہیں اب نہ برطانوی ہند موجود ہے نہ برطانیہ اس حصہ پر حکمران ہے۔
یہ معاہدہ عبدالرحمن اور برطانوی ہند کے سیکرٹری کے درمیان ہوا تھا، جب سوویت یونین نے شکست کھائی تو مشرقی یورپ کے کئی ممالک آزاد ہوگئے اور یوگو سلاویہ تقسیم ہوگیا، اس طرح سوویت کی گرفت سے مسلم ریاستیں آزاد ہوگئیں اور سوویت یونین کے افغانستان میں شکست کھائی تو جغرافیائی تبدیلیاں ہوگئیں۔
اس طرح مسلم دنیا نے شکست کھائی تو یورپ کے کئی ممالک آزاد ہوگئے اور خلافت کا خاتمہ ہوگیا، ہم نے دیکھا ہے کہ ہر سپر طاقت نے شکست کھائی تو جغرافیائی تبدیلیاں ضرور وقوع پزیر ہوئی ہیں، افغانستان کی تاریخ حیرت انگیز ہے کہ جس بھی سپر پاور نے شکست کھائی وہ جارحیت کے ارتکاب سے دست کش ہوگئی ہے۔
اب امریکا نے افغانستان سے اپنا بوریا بستر سمیٹنا شروع کردیا ہے، کہاں اس کا عزم کہ طالبان کو فنا کے گھاٹ اُتارے گا اور آج وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے ٹیبل پر بیٹھ گیا ہے۔
امریکا کی پشت پر پورا مغرب اور مسلم ملوک تھے۔ میرا اپنا تجزیہ یہ تھا کہ جب امریکا افغانستان میں شکست کھائے گا تو مشرق وسطیٰ میں مسلم ملوکیت اس کی زد میں آجائے گی اور جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوں گی اور پاکستان کی جغرافیائی سرحدیں زیادہ محفوظ ہوجائیں گی اور کشمیر کی جدوجہد کو مہمیز ملے گی اور بھارت دبائو میں آجائے گا۔
چین، پاکستان، ترکی، ایران، شمالی کوریا ایک نئے مسلم بلاک کی صورت اختیار کرسکتا ہے، اب مغربی استعمار اور بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاکستان کو مستحکم نہ ہونے دیا جائے تا کہ کشمیر کی جدوجہد منظم نہ ہوسکے اور بھارت غیر مستحکم نہ ہوجائے۔
امریکا کی واپسی کے اثرات افغان حکومت پر بہت زیادہ پڑیں گے، یہ تاریخ کا المیہ تو ہے کہ افغانستان میں امریکا کی سرپرستی میں صدارتی انتخابات ہوئے ہیں اور دونوں دفع صدر منتخب ہوئے ہیں اور دونوں نے ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کیا اور امریکا کی شاطرانہ پالیسی ملاحظہ ہو کہ دونوں کو تسلیم کرتا ہے اور اقتدار دونوں میں تقسیم کرتا ہے۔
اب دیکھنا ہے کہ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی طالبان سے کس طرح نمٹتے ہیں، اگر طالبان اور عبداللہ عبداللہ میں معاملات طے ہوجاتے ہیں تو پھر اشرف غنی کا کھیل ختم ہوجائے گا، پاکستان خاموشی سے اس کھیل کو دیکھ رہا ہے وہ طالبان کو نارض نہیں کرسکتا، اس لیے کہ مستقبل میں طالبان کی گرفت میں افغانستان آجائے گا۔
چین نے ہلمند میں طالبان سے معاہدے کیے ہیں، طالبان و امریکا مخالف گروہ تصور کیے جاتے ہیں اس لیے چین طالبان سے زیادہ قریب ہوجائے گا۔
ایران طالبان سے زیادہ خوش نہیں ہے اس میں پاکستان زیادہ بہتر کردار ادا کرسکتا ہے اور چین بھی ایسا ہی چاہے گا، مشرقی وسطیٰ میں تیل والے مسلم ممالک کیا کردار ادا کرتے ہیں اس کو ہم مستقبل میں دیکھیں گے۔
افغانستان کا سب سے اہم نازک موڑ اس وقت سامنے آجائے گا جب آخری امریکی سپاہی لوٹ رہا ہوگا اور اپنا پرچم ساتھ لے جارہا ہوگا، طالبان اس مرحلے پر کیا رویہ اختیار کرتے ہیں اور کس طرح اشرف غنی کی حکومت سے نمٹتے ہیں ابھی تو بہت سے پردے اُٹھنے والے ہیں، تو پھر تصویر کچھ کچھ نکھر کر سامنے آجائے گی۔