ایران کے خلاف امریکی حکمت عملی میں اسٹریٹیجک تبدیلی کے پس پردہ مقاصد

ایران کے خلاف امریکی حکمت عملی میں اسٹریٹیجک تبدیلی کے پس پردہ مقاصد

🗓️

سچ خبریں:ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات دراصل واشنگٹن کی پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت ہیں،ایران کی بڑھتی طاقت، ٹیکنالوجی میں پیشرفت اور مزاحمت نے امریکہ کو حقیقت پسندانہ حکمت عملی اپنانے پر مجبور کیا ہے۔

ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات صرف ایک سفارتی سرگرمی نہیں بلکہ واشنگٹن کے طرز فکر میں ایک تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں،ایسا موڑ جو ایران کی ابھرتی ہوئی طاقت کے دیرینہ ادراک کا نتیجہ ہے، امریکہ جو کبھی ایران کو دھمکیوں اور پابندیوں کے ذریعے قابو پانے کی کوشش کرتا تھا، اب مذاکرات اور لچک کی راہ پر گامزن ہے۔
 ایران کی طاقت کا ستون
2018 میں امریکہ کی جانب سے یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے (JCPOA) سے دستبرداری کے بعد، ایران نے اپنی جوہری پیشرفت کو تیز کرنے کا اسٹریٹیجک فیصلہ کیا، یورینیم کی افزودگی، جدید ری ایکٹرز کا ڈیزائن اور ایٹمی مواد کی تیاری جیسے میدانوں میں حیران کن کامیابیاں حاصل کیں۔
یہ صرف تکنیکی کامیابیاں نہ تھیں، بلکہ ایک مضبوط سیاسی پیغام بھی تھا کہ ایران اپنے جائز حقوق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوگا،یہ صورتحال، ایران کی قومی خودمختاری کے اصولوں کی روشنی میں، امریکہ کو مجبور کر چکی ہے کہ وہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے مکمل خاتمے جیسے غیر حقیقت پسندانہ مطالبات پر نظر ثانی کرے۔
 امریکہ کا زاویہ نظر کیوں بدلا؟
ایران کی یہ کامیابیاں محض اتفاقی نہیں بلکہ طویل المدتی سائنسی و تکنیکی سرمایہ کاری اور سیاسی استقلال کا نتیجہ ہیں، جو عالمی دباؤ اور پابندیوں کے باوجود ممکن ہوئیں، یہی عوامل آج ایران کو وہ مقام دیتے ہیں جہاں اس کی سرحدوں کے باہر بھی اس کے مفادات و خودمختاری کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔
امریکہ اب ایسے کسی بھی معاہدے کو آگے بڑھانے پر مجبور ہے جو ایران کی ٹیکنالوجی، خودمختاری اور علاقائی کردار کو نظر انداز نہ کرے، یوں مذاکرات کا ماحول یکطرفہ مطالبات سے ہٹ کر ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ مکالمے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
 لیبیا کی شکست سے شمالی کوریا کی مزاحمت تک؛ایران کی جوہری حکمت عملی 
ایران اور مغرب کے درمیان جاری کشمکش میں تہران نے دو تاریخی ماڈلز کو مدنظر رکھا ہے؛لیبیا جو 2003 میں مغرب کے وعدوں کے تحت اپنا جوہری پروگرام ترک کرنے کے بعد حملے کا شکار ہوا اور اس کا نظام تباہ کر دیا گیا،شمالی کوریا جس نے جوہری طاقت بن کر اپنی بقا اور خودمختاری کو یقینی بنایا۔
 لیبیا کا سبق، ایران کی بنیاد
ایران کو بخوبی علم ہے کہ جوہری صلاحیتوں کو ترک کرنا بغیر حقیقی سلامتی ضمانتوں کے، قومی خودکشی کے مترادف ہے۔ لیبیا کے تجربے نے ایران کو سکھایا کہ مغرب کے وعدوں پر تکیہ کرنے کے بجائے، مستحکم دفاعی بازدارندگی ضروری ہے۔
 شمالی کوریا کی راہ: ایک ممکنہ آپشن
اگر مغربی طاقتیں ایران کے پرامن جوہری حق کو تسلیم نہ کریں اور بین الاقوامی وعدے توڑتی رہیں، تو ایران واضح کر چکا ہے کہ وہ بھی NPT (معاہدۂ عدم پھیلاؤ اسلحہ) سے دستبردار ہو کر شمالی کوریا جیسا راستہ اپنا سکتا ہے۔
یہ محض دھمکی نہیں بلکہ ایک واضح حکمت عملی ہے جس کا مقصد مغرب کو سنجیدہ مذاکرات اور ایران کے حقوق کی تسلیم پر مجبور کرنا ہے۔
 معاہدے کی شرائط؛امن، لیکن باعزت
ایران واضح کرتا ہے کہ کوئی بھی جوہری معاہدہ اس وقت قابل قبول ہوگا جب ایران کا پرامن جوہری پروگرام بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہ سکے، ایران کو سیکیورٹی ضمانتیں فراہم کی جائیں تاکہ امریکہ یا اسرائیل جیسے مخالفین کی طرف سے کسی جارحیت کا خطرہ نہ ہو،یہ موقف صرف ایک سفارتی احتیاط نہیں بلکہ قومی بقا کی سٹریٹجک پالیسی ہے۔
امریکہ کی پسپائی: دباؤ کی ناکامی
حالیہ عرصے میں امریکہ نے B-2 بمبار طیارے تعینات کیے،ایران کے حامی گروہوں پر محدود حملے کیے، انصاراللہ کے ساتھ خفیہ مذاکرات کیے،یہ سب اقدامات صرف اسرائیل جیسے اتحادیوں کو مطمئن کرنے کے لیے تھے، نہ کہ ایران کو دبانے کے لیے،اصل تبدیلی امریکی بیانیے میں ہے؛ایران سے جوہری پروگرام کے مکمل خاتمے کا مطالبہ، اب مذاکرات کے مسودے سے ہٹا دیا گیا ہے،یہ ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی شکست کا اعلانیہ ہے۔
 ایران کی استقامت: فتح کا راز
ایران نے شدید ترین پابندیوں کے باوجود اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا،سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی جاری رکھی،قومی وحدت سے اپنی پوزیشن مضبوط کی
 اور آخرکار، واشنگٹن کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا کہ ایران کو طاقت سے جھکایا نہیں جا سکتا،احترام کے ساتھ ہی بات چیت ممکن ہے۔
 ایران کے لیے اسٹریٹیجک موقع: مذاکرات، مزاحمت، اور مغرب کا بدلا ہوا بیانیہ
ایران اور مغرب کے درمیان جاری جوہری مذاکرات نہ صرف ایک ممکنہ معاہدے بلکہ ایران کے علاقائی کردار کو تقویت دینے کا اسٹریٹیجک موقع بھی فراہم کر رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں، ایران نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ اقتصادی پابندیوں اور بین الاقوامی دباؤ کے باوجود وہ اپنی قومی خودمختاری اور ٹیکنالوجی کے حق سے دستبردار نہیں ہوگا۔
 مذاکرات میں ایران کا ہدف
تہران ایک ایسے معاہدے کا خواہاں ہے جو درج ذیل امور کی ضمانت فراہم کرے:
 قومی خودمختاری کا احترام
 پرامن جوہری پروگرام کی تسلسل
 پابندیوں کا تدریجی خاتمہ
 امریکہ کی ممکنہ خلاف ورزیوں سے بچاؤ کے لیے بین الاقوامی ضمانتیں
ایران واضح کر چکا ہے کہ دھونس یا یکطرفہ شرائط پر مبنی معاہدہ قبول نہیں، بلکہ باہمی احترام اور شراکت داری ہی قابل قبول بنیادیں ہیں۔
 مغربی تجزیہ کاروں کی تائید
امریکی تھنک ٹینکس جیسے کارنیگی فاؤنڈیشن اور نیشنل انٹرسٹ نے اپنے تجزیوں میں تسلیم کیا ہے کہ  ایران نہ صرف ایک مذاکراتی فریق بلکہ ایک فیصلہ کن علاقائی طاقت ہے، جسے نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں،یہ تجزیے، اگرچہ سفارتی زبان میں، مگر ایران کے اصولی موقف کی غیر اعلانیہ حمایت کرتے ہیں یعنی مزاحمت کے ساتھ مذاکرات، برابری کی بنیاد پر۔
 چیلنجز؛ اعتماد کا بحران اور صہیونی مداخلت
ایران اور امریکہ کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ اعتماد کا فقدان ہے، جو پچھلی دہائیوں میں معاہدوں کی امریکی خلاف ورزیوں سے پیدا ہوا۔
ایران اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہر معاہدہ میں مؤثر نگرانی کا نظام ہو؛بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی پیچھے ہٹنے کی گنجائش کو روکا جائے۔
دوسری طرف، اسرائیل ایران-مغرب قربت کو خطرہ سمجھ کر میڈیا پروپیگنڈا اشتعال انگیز فوجی اقدامات کے ذریعے ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
 ایران کا نیا ماڈل: مزاحمت + مذاکرات
ایران اب نہ صرف ایک مزاحمتی قوت ہے بلکہ ایک فعال مذاکراتی شراکت دار بھی۔ وہ اپنی بات منوا رہا ہے، صرف منوا نہیں رہا۔
اس کا ماڈل نہ لیبیا کی طرح پسپائی پر مبنی ہے، نہ شمالی کوریا کی طرح انزوا پر؛ بلکہ ایک فعال، خودمختار اور علاقائی توازن ساز طاقت کے طور پر۔

مشہور خبریں۔

فلسطینی مزاحمتی تحریک کی مسجد الاقصیٰ پہنچنے کی اپیل  

🗓️ 4 اپریل 2025 سچ خبریں:فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے تمام فلسطینیوں سے مسجد الاقصیٰ کا

نیتن یاہو اور بائیڈن کے درمیان لڑائی کیوں تیز ہو گئی؟

🗓️ 1 اپریل 2023سچ خبریں:مقبوضہ علاقوں میں مظاہروں کی گہرائی اور وسعت کے بڑھنے کے

وزیراعظم نے پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کی ذمہ داری اسحٰق ڈار کو سونپ دی

🗓️ 17 نومبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول

امریکہ اور یورپی یونین ایک بار پھر آمنے سامنے،وجہ؟

🗓️ 10 دسمبر 2023سچ خبریں: باخبر ذرائع نے اعلان کیا کہ یورپی یونین کے رکن

گرینل ایران کے امور کے لیے خصوصی نمائندے کے طور پر منتخب

🗓️ 12 دسمبر 2024سچ خبریں: روئٹرز نے دو باخبر ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے

مغربی کنارے میں حماس کی سماجی مقبولیت؛امریکی اخبار کی زبانی

🗓️ 30 نومبر 2023سچ خبریں: معروف امریکی اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں حالیہ دنوں

سعودی عرب 7 پوائنٹس کے ساتھ دنیا کے بدترین غیر آزاد ممالک میں شامل

🗓️ 2 مارچ 2022سچ خبریں:انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے سعودی عرب کے انسانی حقوق

عراقی وزیراعظم کا دورہ ایران کیسا رہا؟عراقی حکومت کی زبانی

🗓️ 9 جنوری 2025سچ خبریں:عراقی حکومت کے ترجمان نے اپنے ملک کے وزیراعظم کے دورہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے