🗓️
سچ خبریں:بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نے امریکی دھمکیوں کے تسلسل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے کبھی بھی ان دباؤوں کے آگے جھکنے سے انکار کیا ہے، لیکن اس نے مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
ایران کے خلاف امریکی دھمکیوں کا ہدف
ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ہی امریکی صدور کی ترجیح ایران کو کمزور کرنا رہی ہے، اور تہران ہمیشہ سے شرارت کے مرکز (امریکہ اور صہیونی ریاست) کے عزائم کے راستے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے ایران کے خلاف ہر ممکن حربہ استعمال کیا ہے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ ایران پر کسی بھی فوجی حملے کے تباہ کن معاشی اور مالی نتائج ہوں گے، پھر بھی، وہ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے دھمکیوں کا سہارا لے رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران نے امریکہ کو بالواسطہ مذاکرات کی تجویز کیوں دی؟
معاشرتی علوم کے پروفیسر اور علاقائی امور کے محقق ڈاکٹر طلال عتریسی سے امریکہ اور صہیونی ریاست کے ایران کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات کے بارے میں بات کی۔
امریکی دھمکیوں کا محرک
ڈاکٹر عتریسی کے مطابق، ایران کے خلاف امریکی دھمکیاں ایک ایسا طریقہ کار ہے جسے انقلابِ اسلامی کے بعد سے تمام امریکی انتظامیوں (چاہے ریپبلکن ہوں یا ڈیموکریٹس) نے اپنایا ہے۔
یہ دھمکیاں صرف فوجی نوعیت کی نہیں ہیں، بلکہ کبھی پابندیوں اور محاصرے کی شکل میں سامنے آتی ہیں، موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ بھی اپنے پیشروؤں سے مختلف نہیں، اگرچہ وہ صہیونی ریاست کے ساتھ گہرے تعاون میں مصروف ہے۔
بنیامین نیتن یاہو کا نئے مشرقِ وسطیٰ کا خواب درحقیقت امریکی حمایت کے بغیر ناممکن ہے، جیسا کہ غزہ اور لبنان میں جنگوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
نفسیاتی جنگ اور ایران کا ردِعمل
امریکہ ایران کو اپنے اور صہیونی ریاست کے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے، اسی لیے وہ نفسیاتی جنگ اور فوجی دھمکیوں کا سہارا لے رہا ہے۔ ٹرمپ کا پیام دوغلا تھا: ایک طرف مذاکرات کی پیشکش، دوسری طرف ایران پر میزائل حملوں کی دھمکی۔
ایران نے جواباً واضح کیا کہ وہ بالواسطہ مذاکرات کو مسترد نہیں کرتا، لیکن کسی بھی جارحانہ حرکت کا منہ توڑ جواب دے گا۔
ٹرمپ کے دو ممکنہ منظرنامے
1. مذاکرات کا راستہ؛ ٹرمپ بنیادی طور پر مالی مفادات کا خواہش مند ہے، لہذا یہ امکان زیادہ مضبوط ہے۔
2. جنگ کا راستہ؛ یہ خطے کے لیے تباہ کن ہوگا، جس سے معاشی اور تیل کی صنعت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ عتریسی کے مطابق، ٹرمپ پہلے آپشن کو ترجیح دے گا اور اپنے موقف سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔
رپورٹر : ایرانی حکام نے امریکی صدر کے خط کے جواب میں اس کے تجاویز کیوں مسترد کیں؟
ڈاکٹر عتریسی : ایران نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خط کے جواب میں واضح موقف اپناتے ہوئے براہ راست مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے،اس فیصلے کی کئی اہم وجوہات ہیں:
1. دھمکیوں کے تحت مذاکرات سے انکار
ایرانی قیادت نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے دباؤ یا دھمکی کے تحت مذاکرات میں شامل نہیں ہو گی۔ رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے اس نقطہ نظر کو نرمش قہرمانانہ (Heroic Flexibility) سے تعبیر کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایران اپنی خودمختاری اور عزت کو قائم رکھتے ہوئے سفارتی حل کی راہ پر چلنے کو تیار ہے، لیکن کسی بھی قسم کی جبری شرائط قبول نہیں کرے گا۔
2. ایران کی دفاعی اور علاقائی طاقت پر کوئی سمجھوتہ نہیں
ایران نے دو اہم شرائط رکھی ہیں:
– پہلی شرط: مذاکرات میں ایران کی دفاعی صلاحیتوں (بالسٹک میزائل، علاقائی اتحاد وغیرہ) پر بات چیت نہیں ہو گی۔
– دوسری شرط: ایران اپنے علاقائی اتحادیوں (جیسے حزب اللہ، یمن کے انصاراللہ، عراقی militia groups) کے مفادات سے سمجھوتہ نہیں کرے گا،امریکہ ان شرائط کو ماننے کو تیار نہیں، لہذا ایران براہ راست مذاکرات کو غیر قابل قبول قرار دیتا ہے۔
3. امریکہ پر عدم اعتماد
2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA) کو امریکہ نے یکطرفہ طور پر ختم کر دیا، جس کی وجہ سے ایران کو امریکہ پر اعتماد نہیں رہا۔ ایرانی حکام کا ماننا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ غیر مستحکم اور ناقابل اعتبار ہے، لہذا وہ بالواسطہ مذاکرات (مثلاً یورپی یونین یا دیگر ثالثوں کے ذریعے) کو ترجیح دیتے ہیں۔
4. براہ راست vs بالواسطہ مذاکرات میں فرق
– براہ راست مذاکرات: امریکہ چاہتا ہے کہ ایران اس کے ساتھ بلاواسطہ بات چیت کرے تاکہ وہ اپنی شرائط مسلط کر سکے۔
– بالواسطہ مذاکرات: ایران کا موقف ہے کہ پہلے ثالثوں کے ذریعے اعتماد سازی ہو، پھر ممکنہ طور پر مستقبل میں براہ راست مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
5. ایران کی جنگی تیاری اور علاقائی اثررسانی
ایران نے حالیہ برسوں میں اپنی دفاعی طاقت (میزائل ٹیکنالوجی، ڈرون، علاقائی اتحاد) کو مضبوط کیا ہے۔ علی لاریجانی اور سپاہ پاسداران کے بیانات اس بات کا اشارہ ہیں کہ ایران کسی بھی جارحیت کا سخت جواب دے گا۔
نتیجہ:
ایران امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو وقت کی ضرورت سمجھتا ہے، لیکن صرف اس صورت میں جب:
1. دھمکیوں کا ماحول ختم ہو۔
2. ایران کی دفاعی اور علاقائی طاقت پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔
3. امریکہ معاہدوں پر قائم رہنے کا ثبوت دے۔
رپورٹر: کیا ٹرمپ انتظامیہ ایران کے بالواسطہ مذاکرات کے تجویز کو قبول کرے گی؟
ڈاکٹر عتریسی : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کو قبول کرنے کا امکان موجود ہے، لیکن یہ فیصلہ کئی عوامل پر منحصر ہے
1. ٹرمپ کی سیاسی مجبوریاں:
– ٹرمپ 2024 کے انتخابات سے پہلے ایک بڑی سفارتی کامیابی چاہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ صہیونی لابی کے دباؤ میں بھی ہیں۔
– اگر وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات سے امریکہ کو فائدہ ہوگا (مثلاً تیل کی مارکیٹ میں استحکام یا ایران کے علاقائی اثرات میں کمی)، تو وہ بالواسطہ بات چیت کو ترجیح دے سکتے ہیں۔
2. صیہونی حکومت کا ردعمل:
– نیتن یاہو ایران کے خلاف جنگ چاہتا ہے، لیکن امریکہ کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتا۔
– اگر ٹرمپ مذاکرات کی راہ اپناتا ہے، تو اسرائیل شدید مخالفت کرے گا، لیکن امریکہ اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔
3. عمان کی ثالثی کا کردار:
– عمان پہلے بھی ایران اور امریکہ کے درمیان خفیہ مذاکرات کا میزبان رہا ہے۔
– اگر دونوں طرف عمانی ثالثی پر اعتماد کریں، تو مذاکرات کا آغاز ہو سکتا ہے۔
رپورٹر : ٹرمپ کو جنگی جنون سے کیسے باز رکھا جائے؟
ڈاکٹر عتریسی :ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں کو محدود کرنے کے لیے ایران نے جو حکمت عملی اپنائی ہے، وہ درج ذیل ہے
1. فوجی اور معاشی دفاع(Deterrence):
– ایران نے اپنی میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی کو مضبوط کیا ہے، جو اسرائیل اور امریکی اڈوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
– خلیج فارس میں تیل کی سپلائی کو روکنے کی صلاحیت بھی ایران کے پاس ہے، جو عالمی معیشت کو متاثر کرے گی۔
2. بین الاقوامی دباؤ:
– ایران یورپی ممالک، روس اور چین کو یقین دلا رہا ہے کہ وہ مذاکرات کا حامی ہے، جبکہ امریکہ تنازعہ بڑھا رہا ہے۔
– اگر ٹرمپ حملے کا فیصلہ کرتا ہے، تو بین الاقوامی برادری کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آئے گا۔
3. طویل مدتی مذاکرات کا عمل:
– بالواسطہ مذاکرات کو لمبا کرنے سے ٹرمپ کا جنگی جوش ٹھنڈا پڑ سکتا ہے۔
– انتخابات کے بعد امریکی پالیسی تبدیل ہو سکتی ہے، لہذا ایران وقت گزرنے دے رہا ہے۔
ممکنہ نتائج:
✅ اگر مذاکرات شروع ہوتے ہیں:
– عمان میں خفیہ بات چیت ہوگی۔
– ایران اپنی دفاعی صلاحیتوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
– اسرائیل مایوس ہوگا اور امریکہ پر دباؤ بڑھائے گا۔
❌ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں:
– امریکہ مزید پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔
– خلیج فارس میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے، لیکن بڑی جنگ کا امکان کم ہے۔
نتیجہ: ٹرمپ بالواسطہ مذاکرات کو قبول کر سکتا ہے، لیکن اس کی شرط یہ ہوگی کہ ایران کوئی بڑی رعایت دے۔ ایران ایسا کرنے کو تیار نہیں، لہذا مذاکرات کا عمل طویل اور مشکل ہوگا۔
خطیر صورتحال: ایران اور امریکہ کے ممکنہ تصادم کے اثرات اور علاقائی ممالک کی پوزیشن
1۔ ہمسایہ ممالک کا ردعمل:
خلیجی ریاستیں اور دیگر علاقائی طاقتیں ایران اور امریکہ کے ممکنہ تصادم کو انتہائی خطرناک سمجھتی ہیں۔ ان کے خدشات کے اہم محرکات:
– سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات: اگرچہ ایران کے علاقائی حریف ہیں، لیکن انہیں اندازہ ہے کہ جنگ کی صورت میں ان کے تیل کے ذخائر اور اقتصادی انفراسٹرکچر نشانہ بن سکتے ہیں۔
– قطر اور عمان: یہ ممالک ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جنگ کو روکنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
– عراق: دونوں طاقتوں کے درمیان پھنس جانے کے خدشے سے دوچار ہے، کیونکہ اس کے علاقے میں امریکی اور ایرانی دونوں کے اثرات موجود ہیں۔
2۔ جنگ کے ممکنہ اثرات:
کسی بھی بڑے تصادم کے نتیجے میں:
– تیل کی عالمی منڈی میں زبردست خلل: خلیج فارس سے تیل کی ترسیل متاثر ہوگی، جس سے عالمی معیشت کو شدید دھچکا لگے گا۔
– علاقائی عدم استحکام: شام، یمن اور لبنان جیسے تنازعات میں مزید شدت آجائے گی۔
– انسانی بحران: بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور انسانی المیے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
3۔ ایران کی دفاعی حکمت عملی:
ایران نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی جارحیت کے جواب میں:
– صہیونی ریاست کو نشانہ بنائے گا
– امریکی اڈوں پر حملہ کرے گا
– ان ممالک کے علاقوں کو بھی نشانہ بنائے گا جو امریکہ کو فوجی مدد فراہم کریں گے
4۔ مذاکرات کا امکان:
علاقائی ممالک بالواسطہ مذاکرات کی حمایت کر رہے ہیں کیونکہ:
– یہ جنگ کے خطرے کو کم کرتا ہے
– معاشی مفادات کا تحفظ ممکن بناتا ہے
– علاقائی طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے میں مددگار ہے
5۔ مستقبل کے امکانات:
– اگر مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو علاقے کو بڑے تصادم سے بچایا جا سکتا ہے
– اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو اس کے اثرات صرف خطے تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ عالمی معیشت اور سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے
مزید پڑھیں:ایران امریکہ مذاکرات؛ 4 چیزوں پر ٹرمپ کا اتفاق
خلاصہ:
علاقائی ممالک کے لیے سب سے بہتر حل یہی ہے کہ وہ امریکہ اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریں تاکہ کسی بڑے تصادم کو روکا جا سکے۔ اس وقت دنیا کو ایک اور جنگ کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔
مشہور خبریں۔
واٹس ایپ میں ڈیلیٹ شدہ میسجز کوکیسے پڑھا جائے؟
🗓️ 23 اکتوبر 2021سان فرانسسکو(سچ خبریں)میسجنگ کے لیے مقبول ترین ایپ واٹس ایپ نے ڈیلیٹ
اکتوبر
بِٹ کوائن ڈکیتی کرنے والے دونوں ملزم گوجرانوالا سے ہوئے گرفتار
🗓️ 19 فروری 2021گوجرانوالا {سچ خبریں} ملکی تاریخ میں جاری ماہ فروری میں پنجاب کی
فروری
سعودی پرچم کی تبدیلی افواہ یا حقیقت؟
🗓️ 4 فروری 2022سچ خبریں:سعودی حکومت کی جانب سےاس ملک کے جھنڈے کو تبدیل کرنے
فروری
Finland Has An Education System The Other Country Should Learn From
🗓️ 28 اگست 2022Dropcap the popularization of the “ideal measure” has led to advice such
اگست
زیلنسکی اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کی یوکرین میں ملاقات
🗓️ 18 اگست 2022سچ خبریں: یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور اقوام متحدہ کے جنرل
اگست
امریکہ کے افغانستان پر حملہ کرنے کی اصل وجہ کیا تھی؟
🗓️ 22 جولائی 2023سچ خبریں:طالبان کے وزیر اعظم کے سیاسی نائب مولوی عبدالکبیر نے کہا
جولائی
صدر سے مشاورت کے بغیر انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا ترمیمی بل سینیٹ سے منظور
🗓️ 16 جون 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صدر سے مشاورت
جون
نصراللہ اسرائیل کے بارے میں غلط نہیں ہیں: ہاریٹز
🗓️ 18 مارچ 2023سچ خبریں:عسکری امور کے تجزیہ کار عاموس هرئیل نے عبرانی اخبار ہاریٹز
مارچ