(سچ خبریں) امریکا اگرچہ افغانستان سے ظاہری طور پر شکست کھاکر بھاگنے کی تیاری کرچکا ہے لیکن تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ امریکا جس ملک میں داخل ہوا ہو وہاں سے بغیر کوئی بڑا فساد کرائے آسانی سے نکل گیا ہو اور اب یہ ناپاک کھیل وہ افغانستان میں کھیلنا چاہتا ہے اور بھاگتے بھاگتے افغانستان میں ایک ایسی خانہ جنگی بھڑکا کے جانا چاہتا ہے جس کے شعلے کئی دہائیوں تک بھڑکتے رہیں۔
افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے نئی سازشیں شروع ہوگئی ہیں، عالمی سیاست میں افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار اور مبصرین مستقبل کے افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔
ان خدشات کو امریکی محکمہ خارجہ کی اس ہدایت سے بھی تقویت ملی ہے جس کے مطابق امریکا نے کابل میں اپنے سفارت خانے کے عملے کے بیشتر افراد کو افغانستان سے نکل جانے کی ہدایت جاری کی ہے۔
افغانستان میں کارگذار امریکی سفارت کار روز ولسن نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ سفارتی عملے کو افغانستان چھوڑ دینے کی ہدایت دینے کا فیصلہ کابل میں بڑھتے ہوئے تشدد اور خطرات کی رپورٹ کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
محکمہ خارجہ نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ اس سے کابل سفارت خانے کے کچھ ارکان متاثر ہوں گے اور اس پر فوری طور پر عمل ہوگا، اسی کے ساتھ یہ خبر بھی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی ہے جس کے مطابق امریکی قانون سازوں نے امریکی فوجی انخلا پر تنقید کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر جوبائیڈن کی جانب سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلا کے اعلان پر امریکی فیصلہ ساز حلقوں میں اتفاق رائے موجود نہیں ہے لیکن فوجی انخلا کے علاوہ امریکا کے پاس کوئی راستہ بھی نہیں بچا ہے۔
امریکی حکام نے فوجی انخلا کا اعلان تو کردیا ہے لیکن کیا وہ اس خطے سے واپس جارہا ہے، ایسا نہیں ہے، اس سلسلے میں امریکا کو سب سے زیادہ پریشانی یہ ہے کہ افغانستان میں اس کی تیار کردہ افغان فوج امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان پر اپنا کنٹرول برقرار نہیں رکھ سکے گی۔
اس وقت افغانستان کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بین الافغان مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان طویل کشمکش کے بعد دوحا مذاکرات کامیاب ہوگئے تھے لیکن اس کے دوسرے مرحلے یعنی افغانستان کے مستقبل کے سیاسی نظام کی تشکیل کے لیے بین الافغان مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔
اس سلسلے میں امریکی ایما پر اقوام متحدہ کے تحت ترکی کے دارالحکومت استنبول میں ہونے والی افغان امن کانفرنس دو بار ملتوی ہوچکی ہے۔ استنبول میں ہونے والی افغان امن کانفرنس کا تعطل افغان طالبان کی عدم شرکت کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس کانفرنس کے التوا کی ذمے داری بھی امریکا پر عائد ہوتی ہے۔
دوحا مذاکرات کے تحت یکم مئی 2021ء تک افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کا مکمل انخلا ہونا تھا لیکن امریکا نے معاہدے کے بنیادی نکتے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی انخلا کی مدت کو 11 ستمبر 2021ء تک توسیع دے دی ہے۔ اس اعلان کو افغان طالبان نے دوحا مذاکرات کے تحت ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے استنبول مذاکرات میں شرکت سے انکار کردیا۔
افغانستان میں مستقبل کے حوالے سے بدامنی کی پیش بینی کا سبب یہ ہے کہ امریکا دوحا معاہدے کے باوجود افغانستان سے مکمل انخلا کے لیے تیار نہیں ہے، وہ اس حقیقت پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جنگی طاقت کو اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں شکست ہوگئی ہے؟ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جنگ کے فاتح افغان طالبان ہیں افغان طالبان کا یہ امتحان بھی ہے کہ وہ میدان میں جیتی ہوئی جنگ کو مذاکرات کی میز پر بھی جیت کر دکھائیں۔
پہلے مرحلے میں یعنی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بھی کامیابی کی مثال قائم کردی ہے، اس کامیابی کے ثمر سے افغان طالبان اور افغان قوم کو محروم رکھنے کے لیے سازشیں شروع ہوگئی ہیں، سازشی عمل دوحا مذاکرات کے دوران میں بھی جاری رہا، افغان طالبان نے جس بات پر اپنا اصرار جاری رکھا وہ یہ تھا کہ افغان مسئلے کے اصل فریق امریکا اور افغان طالبان ہیں۔
یہ بات امریکا کو معلوم ہے کہ 70 فی صد افغانستان پر طالبان کا عملی کنٹرول ہے۔ ان کے پاس اس کی رپورٹیں بھی موجود ہیں کہ افغان طالبان کی افغانستان میں مقبولیت بھی بڑھ رہی ہے، ان حقائق کو تسلیم کرنے کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ مستقبل کے سیاسی نظام میں قائدانہ اور غالب کردار افغان طالبان کا ہوگا۔
اس سلسلے میں سب سے منفی کردار کابل حکومت کا ہے۔ امریکیمنصوبہیہ ہے کہ امریکی اور ناٹو فوجی انخلا کے بعد بھارت سمیت مختلف علاقائی طاقتوں کو اپنا نمائندہ کردار ادا کیا جائے، اس لیے اختلافات کا حل تلاش کرنے کے بجائے انتشار کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس صورت حال میں پھر وہی ڈومور کا منظرنامہ ہے اور پاکستان پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ طالبان کو مجبور کرے اور ایسے مذاکرات میں شامل ہو جس کے فیصلے عالمی طاقتوں کی مرضی سے ہوں۔
بعض مبصرین اس خیال کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کو مذاکرات کی پیش کش کا سبب بھی یہی ہے کہ پاکستان افغانستان میں بھارت کے کسی کردار کے راستے میں روکاوٹ نہیں بنے، وار آن ٹیرر کا سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ امریکا اور اس کی اتحادی قوتوں کی خفیہ ایجنسیوں نے دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل کی ہے، روسی صدر پیوٹن تو واضح الفاظ میں امریکا کو داعش کی تشکیل اور سرپرستی کا ذمے دار قرار دے چکے ہیں۔
پاکستان کی حکومت بھی یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان میں افغان این ڈی ایس اور بھارت کی مدد حاصل رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گردی کی بالواسطہ اور بالواسطہ سرپرستی امریکا، اس کی خفیہ ایجنسیاں کرتی رہی ہیں، اس پس منظر میں پاکستان پر دبائو بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے کہ وہ افغان طالبان کو مجبور کریں کہ وہ ایسے مذاکراتی عمل کا حصہ بن جائیں جس کے پاس ابھی تک کوئی واضح لائحہ عمل بھی موجود نہیں ہے۔