(سچ خبریں) اسرائیل کی سیاست میں یہ ڈرامائی تبدیلی ہے، اس تبدیلی کا سہرا بنجمن نیتن یاہو کے سابق چیف آف اسٹاف کے سر ہے، جسے انہوں نے نکال باہر کیا تھا، دائیں بازو کے نفتالی بینیٹ کی جماعت یمینا، جس کا مطلب ہی دایاں بازو ہے، 2019ء کے الیکشن میں ایک بھی نشست پر کامیاب نہیں ہوپائی تھی، مگر 2 سال بعد اب یہی جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔
نفتالی بینیٹ نے اعتدال پسند کہلوانے والے یائر لبید کی سربراہی میں قائم اتحاد کے ساتھ بنجمن نیتن یاہو کو اقتدار سے نکالنے کے لیے معاہدہ کیا اور حیران کن طور پر پہلی بار اسرائیلی حکمران اتحاد میں عرب جماعت کے سربراہ منصور عباس کو بھی شامل کیا گیا کیونکہ ان کے ووٹوں کے بغیر سادہ اکثریت ممکن نہیں تھی۔
اگر اس معاہدے کے تحت حکومت قائم ہوتی ہے تو نفتالی بینیٹ 2 سال کے لیے وزیرِاعظم بن جائیں گے اور معاہدے کے مطابق اگلے 2 سال یائر لبید وزارتِ عظمیٰ سنبھالیں گے، یہ اتحاد صرف اس لیے ڈرامائی نہیں کہ اس میں ایک اعتدال پسند، ایک شدت پسند اور ایک مسلم لیڈر شامل ہیں بلکہ یائر لبید کی سربراہی میں قائم اتحاد میں بائیں بازو کی جماعتیں بھی شامل ہیں۔
نفتالی بینیٹ دراصل نیتن یاہو سے بھی زیادہ دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں، وہ نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے بُرے القابات کے لیے بدنام ہیں بلکہ وہ مغربی کنارے کا تمام علاقہ اسرائیل میں ضم کرنے کے حامی بھی ہیں۔
بنجمن نیتن یاہو کی جماعت لیکود نے مارچ میں ہونے والے انتخابات میں 30 نشستیں حاصل کیں جبکہ نفتالی بینیٹ کی جماعت کو صرف 7 پر کامیابی ملی لیکن نفتالی کنگ میکر بن کر ابھرے، نیتن یاہو اور ان کے بڑے حریف یائر لبید کو حکومت بنانے کے لیے نفتالی بینیٹ کی حمایت درکار تھی، یوں نفتالی بینیٹ جو اسرائیل کی سیاست میں ایک سپورٹنگ ایکٹر تھے بڑے کھلاڑی بن گئے۔
دراصل اس اتحاد کی وجہ بھی نیتن یاہو ہیں اور اس کی کامیابی یا ناکامی کا دار و مدار بھی آنے والے دنوں میں نیتن یاہو کی پالیسیوں پر ہے، یہ اتحاد نیتن یاہو کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے بنا ہے، جب تک نیتن یاہو سیاست میں ہیں یہ اقتدار قائم رہے گا، جب بھی نیتن یاہو سیاست سے الگ ہوئے یا لیکود پارٹی نے قیادت بدلی یہ اتحاد بھی دھڑام سے زمین بوس ہوجائے گا۔
کوئی بھی ملک جو بہترین گورننس چاہتا ہو، اس میں نیتن یاہو جیسے وزیرِاعظم کو ہٹانا واقعی ایک بڑا مقصد لگتا ہے اور نیتن یاہو کی حکومت ایک عرصے سے اپنی کارکردگی کے بجائے طاقت، جبر اور کرپشن کے زور پر قائم تھی۔ نیتن یاہو کو ہٹانے کے لیے اکٹھے ہونے والے سیاستدانوں کا مقصد ملکی مفاد نہیں بلکہ ذاتی ایجنڈا ہے۔
سب سے پہلے اسرائیل کے اندرونی حالات کی بات کرتے ہیں۔ سب سے بڑا خدشہ تو اسرائیل میں کیپیٹل ہل جیسے فساد کا ہے، نئے اتحاد میں شامل رہنماؤں کے گھروں کے باہر نیتن یاہو کے حامیوں نے مظاہرے شروع کردیے ہیں اور نئے اتحاد کے دونوں بڑے رہنماؤں کے گھروں پر اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسی نے اضافی سیکیورٹی کے انتظامات کیے ہیں، اعتماد کے ووٹ کے موقعے پر بھی پارلیمنٹ کے باہر ہنگامے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں بلکہ اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نفتالی بینیٹ پر قاتلانہ حملہ بھی ہوسکتا ہے، یہ حملہ ان کے مخالفین کے علاوہ ان کے اپنے ووٹروں میں سے بھی کوئی کرسکتا ہے کیونکہ اس اتحاد پر ان کے ووٹر بھی ناخوش ہیں۔
اعتماد کے ووٹ سے پہلے بھی کوئی بڑی سیاسی تبدیلی یا دھماکہ ممکن ہے کیونکہ بنجمن نیتن یاہو نے ابھی ہار نہیں مانی اور لیکود پارٹی پارلیمنٹ میں نئے اتحاد کی صرف ایک ووٹ برتری ختم کرنے کی کوشش میں لگی ہے، یعنی ایک بھی ووٹ اِدھر اُدھر ہونے پر حکومت سازی ممکن نہیں ہوگی۔
بنجمن نیتن یاہو چند ارکانِ پارلیمنٹ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 8 جماعتی اتحاد کے 61 ارکان کو اعتماد کے ووٹ تک اکٹھا رکھنا بھی ایک مشکل ٹاسک ہے کیونکہ نیتن یاہو سیاست کے جادوگر ہیں۔ بنجمن نیتن یاہو یمینا کی رکن پارلیمنٹ ایلات شکد سمیت 5 ارکان کو توڑنے پر کام کر رہے ہیں۔ ایلات شکد ان کی کابینہ میں وزیرِ انصاف بھی رہ چکی ہیں، اور ان پانچوں ارکان کے گھروں کے باہر احتجاج شروع کیا جاچکا ہے۔ کئی مذہبی رہنماؤں کا دباؤ بھی موجود ہے اور ان ارکان کو پُرکشش پیشکشیں بھی کی جا رہی ہیں۔
اگر نیتن یاہو نئے اتحاد کی حکومت کی تشکیل روکنے میں ناکام رہے تب بھی وہ اپوزیشن لیڈر رہیں گے اور سابق امریکی صدر ٹرمپ کی طرح منظرنامے سے غائب نہیں ہوں گے۔ نیتن یاہو بطور اپوزیشن لیڈر ایک ہی مشن پر ہوں گے اور وہ مشن ہے اس نئی حکومت اور اتحاد کی سانسیں کم سے کم کرنا۔ نیتن یاہو کے پیروکار سابق امریکی صدر ٹرمپ کے پیروکاروں سے زیادہ شدت پسند ہیں اور انہوں نے ابھی سے نفرت اور خوف پھیلانے کا کام شروع کردیا ہے۔ نیتن یاہو نے خود کہا کہ نئی حکومت اسرائیل اور اس کے فوجیوں کے لیے حقیقی خطرہ ہوگی۔
نیتن یاہو اپوزیشن لیڈر بن کر نئے حکومتی اتحاد کے لیے حقیقی خطرہ بن سکتے ہیں، نیا اتحاد متضاد نظریات کی جماعتوں پر مشتمل ہے، اس اتحاد میں ہر جماعت ہر ایشو پر الگ مؤقف رکھتی ہے خواہ وہ فلسطین کی زمین پر اسرائیل کی نئی بستیوں کا معاملہ ہو، عدالتی معاملہ ہو، امیگریشن یا نظامِ تعلیم سے جڑے معاملات ہوں، کسی اہم ایشو پر اختلاف پنڈورا باکس کو کھول سکتا ہے اور نیتن یاہو مختصر عرصے میں اس حکومتی اتحاد کو نئے الیکشن کروانے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
عرب رہنما منصور عباس کے ساتھ معاہدہ اس اتحاد کا سب سے کمزور نکتہ ہے، منصور عباس نے حکومتی اتحاد کی تشکیل کی ڈیڈلائن ختم ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے معاہدے پر دستخط کیے اور اس وقت تک انہوں نے نیتن یاہو کے ساتھ رابطے برقرار رکھے ہوئے تھے۔ منصور عباس اسرائیل میں رہنے والے عربوں کے نمائندہ ہیں جو اسرائیلی آبادی کا 20 فیصد ہیں، ان کا منشور عرب علاقوں کو حقوق اور ان میں بہتر شہری سہولیات دلوانا ہے۔ منصور عباس نے یہ مطالبہ رکھا ہے کہ عرب دیہات اور نیجیو گاؤں کے اطراف میں بسنے والے بدوں کے دیہی علاقوں کو تسلیم کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔
اسرائیل میں یہودیوں کے سوا کسی کو بھی شہری حقوق حاصل نہیں۔ منصور عباس اس اتحاد میں دائیں بازو کی 3 جماعتوں کے ساتھ بیٹھے ہیں جو عربوں کو شہری حقوق دینے کی مخالف ہیں۔ ان جماعتوں میں اویگدور لائبرمین کی جماعت بھی شامل ہے جو عرب اسرائیلیوں کو حکومت میں شامل کرنے کے مخالف رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تعلیمی نظام پر پیدا ہوگا۔ بھان متی کے اس کنبے میں اس بات پر جوڑ پڑے گا کہ نظامِ تعلیم مذہبی ہو یا سیکولر۔ نیتن یاہو ان کمزوریوں کو جانتے ہیں اور انہیں خوب اچھال کر سیاسی عدم استحکام پیدا کریں گے۔
منصور عباس نے حکومتی اتحاد کی تشکیل کی ڈیڈلائن ختم ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے معاہدے پر دستخط کیے—رائٹرز
خطے کے حالات پر نئی حکومت کا اثر زیادہ ہوگا۔ نیتن یاہو حکومت کی بے دخلی امریکی صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے لیے بھی ایک بھیانک خواب ہے۔ بائیڈن انتظامیہ مشرقِ وسطیٰ سے جان چھڑا کر پوری توجہ چین اور روس پر مرکوز کرنا چاہتی ہے لیکن اب شاید ایسا ممکن نہ ہو اور حالیہ دنوں میں غزہ پر بمباری جیسے واقعات کا تسلسل بن جائے۔
اسرائیلی انٹیلی جنس موساد پر نیتن یاہو کی گرفت مضبوط ہے اور حال ہی میں انہوں نے موساد کا نیا چیف مقرر کیا ہے لیکن فوج اور اندرونی سیکیورٹی کے ادارے شاباک پر ان کا اثر کم ہے۔ 2019ء میں ستمبر کے الیکشن سے پہلے نیتن یاہو غزہ پر جنگ مسلط کرنا چاہتے تھے لیکن اس وقت بھی فوجی سربراہوں نے ان کی چلنے نہ دی۔ اس سال کی جنگ کے دوران وزیرِ دفاع بینی گانتز تھے اور نئی حکومت میں وہی اس عہدے پر برقرار رہیں گے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نئی حکومت نفتالی بینیٹ بنانے جا رہے ہیں، نفتالی بینیٹ اپنے پیشرو بنجمن نیتن یاہو سے زیادہ شدت پسند ہیں اور فلسطینی علاقوں پر یہودی آبادکاری کے کھلم کھلا حامی ہیں اور اسرائیل کے زیرِ تسلط فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے عزائم رکھتے ہیں اور 2 ریاستی حل کے مخالف ہیں۔ ان کی کابینہ بھی شدت پسندوں سے بھری ہوگی، اس کابینہ سے فلسطینی عوام کے لیے بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے۔
اس حکومت میں فلسطینیوں کی اپنے گھروں سے بے دخلی، نئی یہودی بستیوں کا قیام اور ان کی توسیع بڑھ جائے گی۔ نیتن یاہو کی حکومت کے دوران شیخ جراح کے علاقے سے فلسطینیوں کی بے دخلی غزہ پر 11 روزہ بمباری کا سبب بنی، بے دخلی کی رفتار بڑھی تو جنگ کے امکانات بلکہ بار بار غزہ پر آگ کی بارش معمول بن سکتی ہے۔ نفتالی بینیٹ اور ان کی کابینہ کے تمام متوقع وزیر بین الاقوامی قانون کی پرواہ نہیں کرتے، یہ سب یہود بالادستی کے قائل ہیں جہاں عربوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری سے زیادہ ممکن نہیں۔ اعتدال پسند کہلوانے والے یائر لبید بھی فلسطینی زمین پر اسرائیلی تسلط کے حامی ہیں۔
یہ سوچنا کہ نئی حکومت میں فلسطینی عوام کی حالتِ زار بہتر ہوگی دیوانے کا خواب ہے۔ اسرائیل کے اندر رہنے والے عربوں کو بھی شہری حقوق کی امید نہیں رکھنی چاہیے جس کے لیے عرب رہنما منصور عباس پُرامید ہیں۔ نفتالی بینیٹ اپنے پیشرو کی طرف سے اسرائیل دشمن ہونے کے الزامات کو جھٹلانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے اور اس کے لیے وہ مسجد الاقصیٰ پر چھاپے بڑھا دیں گے، غزہ پر بمباری کریں گے اور مغربی کنارے کو ضم کرنے کی کوششیں تیز کریں گے۔
نفتالی حکومت نیتن یاہو سے زیادہ سخت گیر ہونے کا ثبوت دینے کے لیے ایران اور شام کے خلاف کارروائیاں بھی تیز کرسکتی ہے۔ جبر پر قائم ریاست میں اقتدار کا بے رحم کھیل قومی سیکیورٹی کے نام پر جبر اور تشدد کے نئے باب رقم کرسکتا ہے۔ ظلم بڑھنے کی صورت میں پورے خطے کے کسی جنگ کی لپیٹ میں آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
جہاں تک بات ہے اسرائیل کے 15 سال وزیرِاعظم رہنے والے بنجمن نیتن یاہو کی، تو ان کی سیاست نفرت اور جبر سے عبارت ہے۔ اندرونی طور پر نیتن یاہو نے تقسیم کی سیاست کی، مخالفین کی توہین کی اور ان کے حقوق سلب کرنے کے لیے قانون بنائے۔ انسانی حقوق تنظیمیں جو اسرائیلی پالیسیوں پر آواز اٹھاتی تھیں، انہیں بیرونی امداد ظاہر کرنے کا پابند بنایا۔ مخالف سیاستدانوں کو غدار قرار دیا، جو نیتن یاہو کے الفاظ میں فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت دے کر اسرائیل کا سودا کرسکتے تھے۔ نیتن یاہو نے غزہ پر بار بار بمباری کی۔ اپنی جماعت لیکود پارٹی میں سر اٹھانے والوں کو نکال باہر کیا جن میں آج انہیں اقتدار سے نکالنے والے نفتالی بینیٹ بھی شامل ہیں۔
نیتن یاہو نے اسی ہفتے سبکدوش ہونے والے اپنے سرپرست صدر اسرائیل ریوین ریولین کو بھی سیاست میں خطرہ تصور کرتے ہوئے سائیڈ لائن کیا۔ ریین ریولین جب صدارتی امیدوار تھے تو نیتن یاہو نے انہیں ناکام بنانے کی بھرپور کوششیں کیں۔
نیتن یاہو کے پاس کوئی سیاسی ایجنڈا یا پروگرام نہیں تھا سوائے اس کے کہ انہوں نے شدت پسند، قوم پرست اور آبادکاری پروگرام کے نام پر ووٹ لیے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کی۔ فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنا ان کا واحد ایجنڈا تھا جس میں وہ کامیاب رہے اور ماضی میں بائیں بازو کی جماعتیں جو 2 ریاستی حل کی حامی تھیں انہیں بھی دفاعی پوزیشن پر لے گئے۔
نیتن یاہو نے اسرائیلی شہریوں میں بیرونی خطرے کا ڈر اس قدر پیدا کیا کہ پوری قوم کو خطرے کا ڈروا دے کر اقتدار طویل کرتے چلے گئے۔ بیرونی خطرے کے لیے انہوں نے ایران، حماس، حزب اللہ کو خود دشمن بنایا۔ ایران کے خلاف تخریبی کارروائیوں کی مہم شروع کی جو 10سال سے جاری تھی۔ نیتن یاہو نے موساد کو ایران کے جوہری پروگرام پر حملے کا حکم دیا، جوہری سائنسدان قتل کروائے، شام میں ایران کے فوجی اڈوں پر بمباری کروائی، حزب اللہ پر حملے بڑھائے، 2014ء میں غزہ پر حملے کا حکم دیا، اس حملے میں 2 ہزار 300 سے زائد فلسطینی جان کی بازی ہار گئے۔
اس سال مسجد الاقصیٰ پر حملوں اور شیخ جراح میں بے دخلیوں پر حماس نے غصہ دکھایا اور چند راکٹ داغے تو نیتن یاہو نے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنادیا، اس کی رپورٹنگ کرنے والے میڈیا ہاؤسز کے دفاتر پر بھی بم برسادیے۔ فلسطین پر ہر بار جنگ کا مقصد اقتدار کو مضبوط کرنا تھا لیکن اس بار غزہ پر 11 روزہ بمباری بھی نیتن یاہو کو نہ بچاسکی۔
نیتن یاہو کے طویل اقتدار کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اسرائیلی عوام انہیں پیار کرتے تھے بلکہ قوم تقسیم تھی اور اقلیت ہونے کے باوجود وہ حکومتیں بناتے رہے۔ نیتن یاہو نے نفرت، خوف اور بے وفائی کی داستانیں چھوڑی ہیں اور نئی حکومت کو سیاسی منظرنامے پر ملبے کا ڈھیر ملا ہے جسے صاف کرنا اس کمزور حکومتی اتحاد کے لیے ممکن نہیں۔ اسرائیل پہلے سے کہیں زیادہ تقسیم ہے، امیر غریب کی تقسیم، سیکولر اور مذہبی کی تقسیم، فلسطینی اور یہودی کی تقسیم، دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم۔ نئی حکومت اس تقسیم کو پاٹنے کے بجائے مزید گہرا کردے گی۔