ہمارا وہ علاقہ جہاں کے لوگوں کو اشیائے خورد و نوش کے لیے1400 کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے؛ماجرہ کیا ہے؟

ہمارا وہ علاقہ جہاں کے لوگ اشیائے خورد و نوش کے لیے1400 کلومیٹر دور جاتے ہیں؛ماجرہ کیا ہے؟

🗓️

سچ خبریں: دنیا میں شاید ہی کہیں اور ایسی مثال ہو کہ 25 کلومیٹر پر دستیاب اشیا کے لیے 1400 کلومیٹر کا سفر کرنا پڑے۔

امین اللہ بلوچ پاکستان کے ایک ایسے علاقے کے رہائشی ہیں جہاں کے لوگ مہنگائی کے دور میں ایک منفرد مشکل کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے روز مرہ کے استعمال کی اشیا صرف 25 کلومیٹر کی دوری پر سستے داموں دستیاب ہیں، لیکن وہاں جانے کی اجازت نہیں۔

اسی وجہ سے انہیں معمولی چیزوں کے لیے بھی ایک طویل اور دشوار سفر کرنا پڑتا ہے، جو ان کے بقول ایک اذیت سے کم نہیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ اس علاقے کے لوگ اتنی مشکلات سے گزر رہے ہیں؟

یہ بھی پڑھیں: ایران پاکستان تعلقات کو گہرا کرنے میں امیر عبداللہیان کا کردار نمایاں رہا

یہ علاقہ بلوچستان کے ضلع واشک کی ایک چھوٹی تحصیل ماشکیل ہے، جہاں ریت کے سوا کچھ نہیں، نہ سایہ، نہ پانی، اور نہ ہی پختہ سڑکیں۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب مغرب میں تقریباً 700 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ علاقہ آج تک پختہ سڑک کی سہولت سے محروم ہے۔

لیکن چند سال قبل یہ محرومی اتنی بڑی محسوس نہیں ہوتی تھی کیونکہ مقامی لوگ صرف 25 کلومیٹر دور ایرانی علاقے سے انتہائی سستے داموں ضروریات زندگی خرید سکتے تھے۔

اس کے علاوہ، اس ریگستانی تحصیل کا سب سے بڑا ذریعہ معاش بھی ایران سے ملحقہ سرحد تھا، جہاں سے سمگل شدہ ایرانی تیل کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔

لیکن چند سال قبل سرحد کی نگرانی سخت ہو گئی اور پابندیوں کے بعد ایرانی سستے سامان کی خرید و فروخت آسان نہیں رہی۔

مقامی افراد کے مطابق، انہیں اب 400 گنا زیادہ مہنگے داموں ضروریات زندگی کوئٹہ سے حاصل کرنی پڑتی ہیں، جو 1400 کلومیٹر دور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرحدی پابندیوں کے بعد سستا ایرانی سامان بھی مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔

تاہم، ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ بلوچستان کے سابق چیف سیکریٹری احمد بخش لہڑی، جو طویل عرصے تک سرحدی ضلع چاغی کے ڈپٹی کمشنر رہے ہیں، کے مطابق ‘ماضی میں سرحدی معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے چرواہوں کو اجازت تھی کہ وہ دوسرے ملک کی سرحد کے اندر 60 کلومیٹر تک مویشی لے جا سکتے تھے۔

اسی طرح دونوں اطراف کے لوگ 60 کلومیٹر تک ایک دوسرے کے حدود میں اپنا سامان لے جا کر فروخت کر سکتے تھے۔’

واضح رہے کہ بلوچستان کے زیادہ تر سرحدی اضلاع کا معاش اور روزگار ایران اور افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔

تاہم، ایران سے متصل پانچ مخصوص اضلاع کی آبادی بنیادی خوراک کی اشیا کے لیے ایران پر انحصار کرتی ہے۔ یہ اضلاع چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر ہیں۔

ایف بی آر اور کسٹمز کے حکام کا موقف ہے کہ بلوچستان میں سرحدوں سے بڑے پیمانے پر سمگلنگ ہوتی ہے، جس سے ملک کی معیشت اور صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

اذیت ناک سفر

بی بی سی نے ماشکیل تک کا سفر کیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ آیا واقعی پاکستان کا یہ دور دراز علاقہ اتنی مشکلات سے دوچار ہے اور کیا یہاں تک کا سفر اتنا ہی دشوار ہے جتنا بتایا جاتا ہے۔

سفر کے دوران جہاں پختہ سڑک ختم ہوئی، وہاں سے پانچ گھنٹے کا ریگستانی راستہ شروع ہوا۔

یہاں اگر ڈرائیور انجان ہو تو راستہ بھٹکنے کی صورت میں شدید گرمی میں جان سے بھی ہاتھ دھو سکتا ہے۔

ہمارے ڈرائیور اکرام احمد نے بتایا کہ مقامی ڈرائیور بھی قافلوں کی شکل میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ماشکیل تک سفر کے دوران بگ نامی علاقہ بھی آتا ہے، جہاں زیادہ بارشوں کی صورت میں ایران اور دیگر علاقوں سے آنے والا سیلابی پانی راستہ بند کر دیتا ہے۔

اس کی وجہ سے یہ علاقہ اکثر تین ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک باقی پاکستان سے کٹ کر رہتا ہے۔

اس صحرا میں ہمیں نہ کوئی سبزہ دکھائی دیا، نہ سایہ دار درخت، نہ پانی اور نہ ہی کوئی دوسری سہولت۔

وہ بازار جہاں اب ہر چیز کئی گنا مہنگی ملتی ہے

ماشکیل پہنچنے پر بھی منظر زیادہ مختلف نہیں تھا۔ شہر میں نہ دکانیں تھیں اور نہ ہی کوئی بینک۔ معلوم ہوا کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اپنی پینشن لینے کے لیے دالبندین جاتے ہیں۔

لیویز کے ایک ریٹائرڈ ملازم عبداللہ نے بتایا کہ ان کی 28 ہزار روپے پینشن میں سے چھ ہزار کرایے اور کھانے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔

بلوچستان کے اس انتہائی پسماندہ علاقے میں لوگ زیادہ تر کیمرے کے سامنے بولنے سے گھبرا رہے تھے۔

لیکن جنہوں نے ہم سے بات کی، انہوں نے ضرور سوال اٹھایا کہ وہ 25 کلومیٹر دور دستیاب سامان کی خریداری کے لیے 1400 کلومیٹر دور کیوں جائیں۔

بازار میں ہماری ملاقات رحیم داد سے ہوئی، جو کہتے ہیں کہ ایران سے خریداری کو ترجیح دی جاتی تھی کیونکہ چیزیں انتہائی سستی تھیں۔ "پہلے ایک لیٹر ایرانی کوکنگ آئل 70 سے 100 روپے میں ملتا تھا، اب 400 سے 500 روپے میں مل رہا ہے۔ 40 کلو آٹے کا تھیلا جو ایران سے 600 روپے میں آتا تھا، اب پانچ ہزار روپے سے زیادہ میں لینا پڑتا ہے۔”

انہوں نے مزید بتایا کہ "ایران سے 10 کلو گیس کا سیلنڈر ہمیں 600 روپے، سردیوں میں 800 روپے میں ملتا تھا۔ اب پابندیوں کے باعث پاکستان کے دوسرے حصوں سے آنے والا سیلنڈر چار ہزار روپے میں بھی نہیں ملتا۔”

گوشت کی ایک دکان پر ہماری ملاقات ایک اور خریدار امین اللہ بلوچ سے ہوئی۔ ان کا بھی کچھ ایسا ہی شکوہ تھا۔

پاکستان سے آنے والا مرغی کا گوشت 800 روپے تک میں مل رہا ہے، لیکن ڈیڑھ ماہ پہلے اس کی قیمت ہزار سے 1200 روپے تک پہنچ گئی تھی۔ جب سرحد کھلی ہوئی تھی تو ایرانی مرغی کا گوشت ہمیں 250 سے 300 روپے میں ملتا تھا۔

ٹماٹر اور دیگر سبزیاں بھی بہت سستی ملتی تھیں، لیکن اب ہم ہر چیز مہنگی خریدنے پر مجبور ہیں۔”

ایک علاقے میں بڑی تعداد میں دکانوں کی بندش کی وجہ پوچھنے پر مقامی صحافی نصیر کبدانی نے بتایا کہ "جب سرحد کھلی تھی تو یہ دکانیں چل رہی تھیں اور یہاں گاڑیوں اور لوگوں کی اتنی تعداد ہوتی تھی کہ یہاں سے گزرنا مشکل ہوتا تھا، لیکن اب یہاں ویرانی ہے۔”

ایک دکاندار نے بتایا کہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے ایرانی اشیاء کی لاگت بھی بہت زیادہ ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "کراچی اور پنجاب پاکستان کے ایک کونے پر ہیں جبکہ ماشکیل دوسرے کونے پر۔ اس لیے پاکستانی اشیا کی لاگت بھی یہاں پہنچنے تک بہت زیادہ ہوتی ہے۔

یہیں ہماری ملاقات شکراللہ سے ہوئی، جو پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور ہیں اور سرحدی پابندیوں سے متاثرہ افراد میں شامل ہیں۔ شکر اللہ نے ہم سے سوال کیا کہ ماشکیل میں ہے کیا؟

انہوں نے کہا کہ ‘خدا کے لیے سرحد سے تجارت اور کھانے پینے کی اشیا کی آمدورفت کو بند نہ کیا جائے، ورنہ ہم مر جائیں گے۔’

مقامی سیاسی رہنما ظریف بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں دنیا میں شاید ہی کہیں ایسی مثال ملے کہ 25 کلومیٹر دور دستیاب اشیا کے لیے لوگوں کو 1400 کلومیٹر سفر کرنا پڑے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سرحد پر باڑ لگ چکی ہے اور کورونا وبا کے بعد بہت سے کراسنگ پوائنٹ بند ہو چکے ہیں، جہاں سے ماضی میں لوگ قانونی طور پر آمدورفت کرتے تھے اور کھانے پینے کی اشیا آرام سے لے آتے تھے۔

چند ہفتے قبل ماشکیل کے عوام کی مشکلات اجاگر کرنے کے لیے کوئٹہ تک لانگ مارچ کی قیادت کرنے والے جیئند بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ باڑ لگ جانے کے بعد چند ہی کراسنگ پوائنٹ باقی رہ گئے ہیں، جن میں سے صرف ایک گزر نامی گیٹ سے محدود پیمانے پر ایرانی تیل لانے کی اجازت ہے۔

کوئٹہ تک احتجاج کے لیے پیدل مارچ کرنے والے مقامی افراد میں ایک پیر سے معذور اسماعیل بلوچ اور خان محمد بھی شامل تھے۔

انہوں نے ہمیں بتایا کہ کوئٹہ میں ان کو سرکاری سطح پر یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ‘ایک گیٹ، زیرو پوائنٹ کو آمدورفت کے لیے کھولا جائے گا اور مزہ سر نامی کراسنگ پوائنٹ کو بھی کھول دیا جائے گا، مگر ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔

مقامی رہنما ظریف بلوچ کا کہنا ہے، "ہم حکومت سے کہتے ہیں کہ سرحد پر سیکیورٹی کے حوالے سے جتنی سختی کر سکتے ہو کرو، لیکن خدارا کھانے پینے کی اشیا اور ایندھن کے لیے گزرگاہوں کو کھولا جائے۔”

یہ مطالبہ صرف سستی اشیا کے حصول کے لیے نہیں بلکہ روزگار کے لیے بھی ہے۔

کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور سابق صدر فدا حسین دشتی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ایران سے جڑے سرحدی علاقوں میں جو تھوڑا بہت معاش اور روزگار ہے، وہ سرحدی تجارت کی وجہ سے ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات میں حکومت سرحدی علاقوں میں ایرانی سستی اشیاء اور ایندھن کا متبادل فراہم کرنے کی مالی سکت نہیں رکھتی، کیونکہ یہ علاقے اتنے دور دراز ہیں کہ خود حکومت اپنے استعمال کے لیے وہاں تیل نہیں پہنچا سکتی۔

فدا حسین دشتی کے مطابق، سرحد سے تیل آنے کی وجہ سے پاکستان کا زرمبادلہ بچ رہا ہے کیونکہ ایرانی سرحد پر تمام تجارت مقامی کرنسی میں ہوتی ہے۔

حکومت کا موقف

ماشکیل کے انتظامی سربراہ اسسٹنٹ کمشنر احمد زیب کاکڑ نے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت جلد ہی ایران کی سرحد سے منسلک مزہ سر کراسنگ پوائنٹ کو کھول دے گی۔

بلوچستان کے وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں پسماندگی زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا، "بجٹ کی کتابوں میں فنڈز ہوتے ہیں لیکن وہ صحیح معنوں میں نہیں لگتے۔ اگر وہ فنڈز صحیح معنوں میں استعمال ہوتے تو صورتحال مختلف ہوتی اور لوگوں کو بہت ساری سہولیات مل جاتیں۔”

انہوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں کے لوگ سینکڑوں سال سے آباد ہیں اور ان کی رشتہ داریاں سرحد کے پار بھی ہیں۔ "لیکن پہلے اور آج کے حالات مختلف ہیں۔”

وزیر خزانہ نے مزید کہا، "اگر سرحدی تجارت بند ہوتی ہے تو سرحدی علاقوں کے لوگ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔ اور جب تک نعم البدل نہیں ہوتا، اس سے پہلے اسے بند کرنے سے بہت سارے مسائل پیدا ہوں گے۔

تاہم ان کے مطابق سرحدی تجارت کے لیے بین الاقوامی معیار کو اپنانا پڑے گا۔

شعیب نوشیروانی نے کہا، "ماشکیل کے لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں ایک پوائنٹ کھول کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے لیے خوراک اور دیگر اشیا لا سکیں۔” انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں: ’دنیا کی کوئی طاقت پاک-ایران تعلقات خراب نہیں کر سکتی‘، ایرانی صدر کی بلاول بھٹو سے ملاقات

مطالبوں اور دعووں کی بھرمار سننے کے بعد جب ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا تو ایک بار پھر اسی صحرا سے گزرنا پڑا، جہاں چہرے دھول سے بھر جاتے ہیں اور حلق خشک ہو جاتے ہیں۔

مشہور خبریں۔

وفاقی حکومت کا آئی جی خیبرپختونخوا کو تبدیل کرنے کا فیصلہ

🗓️ 6 فروری 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) وفاقی حکومت نے آئی جی خیبرپختونخوا کو تبدیل

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پہلی بار مقبوضہ کشمیر میں پولنگ

🗓️ 19 اپریل 2024سرینگر: (سچ خبریں) انتہاپسند بھارتی حکومت کی جانب سے اگست 2019 میں

کیا سلیمان فرانجی اب بھی حزب اللہ کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں ؟

🗓️ 29 دسمبر 2024سچ خبریں: لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمت کے وفادار دھڑے کے نمائندے حسن

مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی نوجوان کی شہادت پر اقوام متحدہ کا ردعمل

🗓️ 6 دسمبر 2021سچ خبریں:اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (او سی

عام انتخابات: حکومت کا ہزاروں سیکیورٹی اہلکار تعینات کرنے کا فیصلہ

🗓️ 17 جنوری 2024اسلام آباد:(سچ خبریں) بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کی روک تھام کے لیے

امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد آنکارا میں ریلی

🗓️ 13 دسمبر 2024سچ خبریں: آج وطن پارٹی کے نوجوان علمبردار امریکی وزیر خارجہ انتھونی

گڈو پاور پلانٹ میں فنی خرابی کے باعث آگ لگ گئی‘ کئی شہروں کی بجلی معطل

🗓️ 31 دسمبر 2023حیدرآباد: (سچ خبریں) گڈو پاور پلانٹ کی ٹرانسمیشن لائن میں فنی خرابی

جنیوا کانفرنس: دنیا کی جانب سے 9 ارب ڈالر کے اعلانات تاریخی کامیابی ہے، شہباز شریف

🗓️ 11 جنوری 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیر اعظم شہباز شریف نے جنیوا میں ہونے والی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے