سچ خبریں:روس اور امریکہ کے تعلقات میں یوکرین اور نیٹو دو اہم مسائل ہیں، جن پر ٹرمپ کا ممکنہ رویہ بائیڈن حکومت سے مختلف ہوگا۔
بائیڈن کے بعد امریکی خارجہ پالیسی کا روس جیسے طاقتور ملک کے حوالے سے طرز عمل سیاسی تجزیہ کاروں اور بین الاقوامی ماہرین کی توجہ کا مرکز ہے۔
عالمی برادری کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ واشنگٹن کا روس سے متعلق موقف تبدیل ہوگا یا وہی رہے گا۔ نیوز ویک کی رپورٹ کے مطابق، یوکرین کے صدر زلنسکی ٹرمپ کی واپسی سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ اور روس کے درمیان کیا چل رہا ہے؟
ٹرمپ کی نئی کابینہ کے تعین سے پہلے ہی ان کی خارجہ پالیسی کا عمومی خاکہ واضح ہو چکا ہے۔ مبصرین کے مطابق، ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے بیانات اور 2016 سے 2020 کے ان کے اقدامات سے توقع ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں آئیں گی۔ ایسا لگتا ہے کہ یوکرین اور نیٹو کے معاملات ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل ہوں گے۔
ٹرمپ کا "پہلے امریکہ” کا نعرہ اب بھی قائم ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بائیڈن ٹیم کے یوکرین سے متعلق اقدامات کی مخالفت کریں گے، تاہم یہ فیصلہ تاریخی امریکہ-روس تنازعات کے خاتمے کی نشاندہی نہیں کرتا۔
روس کی طاقت اور ٹرمپ کی حکمت عملی
روس نے پابندیوں اور عالمی دباؤ کے باوجود یوکرین جنگ میں اپنی تاب آوری برقرار رکھی ہے۔ کارنگی فاؤنڈیشن اور فنانشل ٹائمز کے تجزیہ کار الیگزینڈر گابوف کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کی ٹرمپ کی فتح پر گفتگو خاص اہمیت رکھتی ہے۔
یوکرین بحران کا خاتمہ روس کے لیے بھی اہم ہے، اور ٹرمپ کی جیت روس کے لیے ایک نیا موقع فراہم کر سکتی ہے۔
ٹرمپ کی ممکنہ حکمت عملی میں اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کو 50 ڈالر فی بیرل تک لانے کا دباؤ ڈالا گیا تو یہ روسی حکومت کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔
تاہم، کرملین کو امید ہے کہ ٹرمپ، بائیڈن کے برعکس، یورپی اتحادیوں کے یوکرین کے معاملات میں فیصلوں کی حمایت نہیں کریں گے۔
یہ تجزیہ ایسے وقت میں پیش کیا گیا جب ٹرمپ نے اپنی انتخابی تقاریر میں جنگ کے فوری خاتمے کا وعدہ کیا۔ ان کے مشیر واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ کے لیے اہم نہیں کہ یوکرین کے 20 فیصد علاقے پر روس کا کنٹرول رہے، ان کی اولین ترجیح جنگ اور تناؤ کا خاتمہ ہے۔
مغربی دارالحکومتوں میں یہ تشویش پیدا ہو چکی ہے کہ ٹرمپ آئندہ چند ماہ میں یوکرین کی حمایت نہیں کریں گے۔
ممکن ہے کہ ٹرمپ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کو نہ روکنے کے لیے تیار ہوں۔ ٹرمپ کا یہ طرز عمل محض صلح پسندی نہیں، بلکہ ابتدائی دنوں میں یوکرین میں جنگ بندی کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی خواہش ہے۔
روس اب بھی عالمی طاقت ہے
بائیڈن حکومت نے روس کو زوال پذیر قوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن امریکی اسٹریٹیجک ماہرین اس سے متفق نہیں۔ جیسے کہ امریکی بحریہ کے پروفیسر نکولس گوسودف نے کہا کہ روس آج بھی عالمی سطح پر اہم اقتصادی اور عسکری طاقت ہے۔
روس کو بین الاقوامی نظام سے الگ کرنا ممکن نہیں، اور تنہائی کی کوشش امریکی ڈالر کی طاقت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
عالمی تعلقات کے ماہرین اور امریکی سیاستدانوں نے روس کے حوالے سے محتاط فیصلے کا مشورہ دیا ہے۔ امریکی معاون وزیر خارجہ برائے یورپ اور یوریشیا نے کہا کہ غیر محدود پابندیاں سفارت کاری کے منافی ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکہ اور روس کی ممکنہ ایٹمی جنگ میں 5 ارب سے زیادہ لوگوں کے مارے جانے کا خطرہ
بائیڈن حکومت کے مشیر بھی بین الاقوامی پابندیوں کے بے اثر ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں، اس لیے ٹرمپ ٹیم کو روس کے سیاسی، دفاعی اور اقتصادی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے نئے فیصلے کرنا ہوں گے۔
روس کے معاملے میں چین کی اہمیت
روس کے بارے میں ٹرمپ کی نئی حکمت عملی میں چین کا کردار ایک کلیدی عنصر ہے۔ چین اور روس چند برسوں میں سیاسی، دفاعی اور معاشی شعبوں میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہے ہیں۔ اس اسٹریٹیجک حقیقت کے باعث روس کے پاس امریکہ کی پیشکشوں کا جواب دینے کے لیے ہمیشہ متبادل راستے موجود ہیں۔