سچ خبریں: حزب اللہ مختصر مدت میں صہیونی ریاست کے گیس کے میدانوں کو سنگین دھمکیوں کا سامنا کروا سکتی ہے اور تل ابیب کو اس حوالے سے بھاری نقصانات پہنچا سکتی ہے۔
طوفان الاقصی کے ایک سال بعد صہیونی فوجی حکمت عملی مزید جارحانہ ہو چکی ہے اور اس ریاست نے اپنی فوجی صلاحیتوں کو خاص طور پر شمالی سرحدوں پر فضائی بمباری اور زمینی آپریشنز میں حزب اللہ کے خلاف مرکوز کیا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حزب اللہ کے میزائلوں نے امریکہ میں کیسے ہلچل مچا دی؟
اس تناظر میں، مغربی ایشیا میں طاقت کے توازن کی منطق مزاحمتی محور کے کھلاڑیوں کو صہیونی ریاست کے طاقت کے ذرائع سے نمٹنے پر مائل کرتی ہے۔
ان ذرائع میں سے ایک اہم ترین صہیونی ریاست کے توانائی کے وسائل، خاص طور پر گیس کے میدان ہیں، جو مشرقی بحیرۂ روم میں واقع ہیں اور اسرائیل کی طاقت، خاص طور پر اقتصادی میدان میں، کا ایک اہم حصہ ہیں۔
توانائی: صہیونی ریاست کی نئی طاقت کا ذریعہ
اسرائیل نے 2004 میں بحری گیس کے میدانوں سے قدرتی گیس کی پیداوار شروع کی لیکن یہ مقدار اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھی، 2009 سے 2013 کے درمیان بحیرۂ روم کے گہرے پانیوں میں کئی گیس کے میدان دریافت ہوئے، جن میں تامار، لویاتان، کاریش اور کاریش شمالی اہم ہیں۔
تامار گیس کا میدان
یہ میدان 2013 میں دریافت ہوا اور اس کی تخمینی پیداوار 282 ارب مکعب میٹر ہے، اور یہ روزانہ 887 ملین مکعب فٹ گیس پیدا کرتا ہے، یہ میدان غزہ کی پٹی کے شمال میں عسقلان سے 24 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے، یہ میدان 7 اکتوبر کو طوفان الاقصی آپریشن کے بعد متاثر ہوا، اور اس کی بندش کے نتیجے میں اسرائیل کی مصر کو گیس کی برآمدات معطل ہو گئیں۔
لویاتان گیس کا میدان اور غزہ کی جنگ
لویاتان صہیونی ریاست کا سب سے بڑا گیس کا میدان ہے اور حیفا کے ساحل کے قریب واقع ہے، اس میدان کے موجودہ ذخائر کی قدر 12.5 ٹریلین مکعب میٹر ہے۔
2018 میں نیتن یاہو نے اس کامیابی کو "ایک بڑٓا انقلاب” قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ لویاتان اسرائیل کے لیے صاف توانائی فراہم کرے گا جو کوئلے کی جگہ لے گی اور سرکاری فنڈز میں اربوں ڈالر کا اضافہ کرے گی۔
اس میدان کا پہلا مرحلہ 2020 میں شروع ہوا، اور یہ روزانہ 1,054 ملین مکعب فٹ گیس پیدا کرتا ہے، اس میدان کی بڑی پیداواری صلاحیت کی وجہ سے تل ابیب نے جون 2022 میں یورپ کے ساتھ گیس برآمدات کا معاہدہ بھی کیا۔
لویاتان گیس کا میدان طوفان الاقصی اور اسرائیل کے لیے تامار گیس کے میدان کی بندش کے بعد گیس کی برآمدات کو برقرار رکھنے کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔
2013 میں آزاد صحافی فیلیسٹی آربوتنات نے ایک تجزیے میں لکھا تھا کہ اسرائیل دعویٰ کرتا ہے کہ یہ خزانہ اس کا ہے حالانکہ اس سمندری دولت کا بڑا حصہ غزہ کے عوام کا حق ہے۔
طوفان الاقصی کے آغاز کے فوراً بعد، عبرانی ویب سائٹ Mekomit نے اسرائیلی وزارت اطلاعات کا ایک 10 صفحات کی خفیہ دستاویز شائع کی جس میں غزہ کے 2.2 ملین سے زائد لوگوں کو زبردستی شمالی سینا (مصر) میں پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کرنے کا ذکر تھا۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، اسرائیلی حکومت کا یہ اقدام غزہ کے گیس کے میدانوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔
کاریش گیس کا میدان اور لبنان کے ساتھ تنازع
کاریش گیس کا میدان لبنان کے پانیوں سے صرف 10 میل کے فاصلے پر ہے اور روزانہ 425 ملین مکعب فٹ گیس پیدا کرتا ہے، 2011 سے یہ میدان لبنان اور اسرائیل کے درمیان تنازع کا مرکز بنا ہوا ہے، جب لبنان نے اپنی سمندری سرحدوں کی حدود اقوام متحدہ کو جمع کروائی۔
اکتوبر 2020 میں دونوں ممالک کے درمیان تکنیکی مذاکرات کا آغاز ہوا، جس میں لبنان نے اپنی سمندری سرحدوں کی دوبارہ حد بندی کا مطالبہ کیا۔
پہلے مذاکرات لبنان کے 2011 کے نقشے کے مطابق ہونے تھے، جس میں لبنان نے اپنی سمندری حدود 860 مربع کلومیٹر بتائی تھیں، تاہم بیروت نے بعد میں اعلان کیا کہ یہ تخمینہ غلط تھا اور 1,430 مربع کلومیٹر اضافی علاقے کا مطالبہ کیا، جس میں کاریش گیس کا میدان بھی شامل ہے۔
اسرائیل نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا اور مذاکرات کو معطل کر دیا، نومبر 2020 میں اسرائیل نے لبنان کے مطالبے کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وہ 2011 میں طے شدہ حدود سے باہر کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔
اس دوران حزب اللہ نے بھی تل ابیب کو متنبہ کیا کہ اگر کاریش کے میدان سے گیس نکالنے کا عمل شروع کیا گیا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔
اسرائیل کی گیس کے میدانوں میں کمزوریاں
1. اسرائیل، جو پہلے مصر سے گیس درآمد کرتا تھا، اب نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ گیس کو مصر اور اردن کو برآمد بھی کر رہا ہے اور اس موقع کو عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
2. اسرائیل اپنی گیس کے ذرائع کو یورپی یونین کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور یورپ کے لیے ایک قابل قبول اقتصادی شراکت دار بننے کی کوشش میں اہم قرار دے رہا ہے۔
3. بحیرہ روم میں گیس کے ذخائر اس خطے میں تعاون کا ایک اہم ذریعہ ہیں، خاص طور پر اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات کی بحالی اور قبرص کے حوالے سے مذاکرات میں۔
4. اسرائیل لویاتان، کاتلان اور تانین کے گیس کے میدانوں کے پہلے مرحلے کی ترقی کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے، جو سب بحیرہ روم میں واقع ہیں۔
جون 2024 میں، اسرائیلی وزیر توانائی نے لویاتان گیس کے میدان کی 500 ملین ڈالر کی ترقیاتی پیشکش کی بھی منظوری دی۔
حزب اللہ گیس کے میدانوں کو نشانہ بنا سکتی ہے
اسرائیل نے بحیرۂ روم کے گیس کے میدانوں پر جو سرمایہ کاری کی ہے ان کی تنصیبات کو حزباللہ کے ممکنہ حملوں کے سامنے زیادہ حساس اور کمزور بنا چکی ہے۔
خاص طور پر لویاتان جیسا عظیم گیس کا میدان، حزباللہ کے ممکنہ اہداف میں شامل ہے، حزباللہ نے لویاتان گیس کے میدان کی ترقی کے اعلان کے بعد ایک ویڈیو جاری کی، جس میں اسرائیل کی توانائی کی تنصیبات کو ممکنہ اہداف کے طور پر دکھایا گیا۔
اس ویڈیو میں لویاتان گیس کے میدان کے جغرافیائی حدود اور حزباللہ کے ڈرونز سے لی گئی تصاویر کا بھی حوالہ دیا گیا۔
یہ میدان حیفا کے ساحل سے 80 میل کے فاصلے پر سمندر کی تہہ میں واقع ہے، لیکن اس کا پروسیسنگ پلیٹ فارم زیچرون یاکوو شہر کے چند میل کے فاصلے پر ہے اور حزباللہ کے میزائلوں کے نشانے پر ہے۔
اسرائیلیوں کو سب سے زیادہ خوف حزباللہ کے درمیانی رینج کے میزائلوں اور ڈرونز سے ہے، یکم اکتوبر 2024 کو حزباللہ نے ایک خودکش ڈرون کو کاریش گیس کے میدان کی طرف بھیجا جو ان حملوں کی ایک مثال ہے۔
نتیجہ
حزباللہ اسرائیل کے گیس کے میدانوں کو، کم از کم قلیل مدت میں، شدید خطرات سے دوچار کر سکتا ہے،حزباللہ کی دھمکیوں اور اسرائیل کی خراب معاشی صورتحال کے باوجود، لویاتان گیس کے میدان کے اضافی فیز کی تیاری میں چند سال لگ سکتے ہیں۔
اسرائیل نے بحیرۂ روم میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے یہ اقدام سرمایہ کاروں کے لیے کشش کا باعث نہیں بن رہا ہے۔
مزید پڑھیں: حزب اللہ کا صہیونی حکومت کی جنگی کونسل کو شدید انتباہ
علاقائی سطح پر بھی حزباللہ کی طاقت بحیرۂ روم میں گیس کی دریافتوں پر اسرائیل کے غلبے کو متاثر کر سکتی ہے، مثال کے طور پر، قبرص، جو اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے، اس علاقے میں ایک نیا گیس کا میدان دریافت کر رہا ہے، لیکن حزباللہ کی دھمکیوں کی وجہ سے اس کے سرمایہ کار پریشان ہیں۔