?️
سچ خبریں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے بارے میں پالیسی میں اچانک تبدیلی اور نرم لہجہ اختیار کرنا، عالمی سطح پر ایک اہم اور واضح پیغام دے رہا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی ایران مخالف حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔ یہ ناکامی صرف سفارتی محاذ تک محدود نہیں بلکہ میدانِ عمل میں بھی اس کی علامات نمایاں ہو چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ ایران سے خوف زدہ:امریکی تجزیہ کار
عراقی سیاسی تجزیہ کار نے خبرگزاری مہر کو بھیجے گئے ایک تجزیے میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح ٹرمپ حکومت کی طرف سے پہلے زیادہ سے زیادہ دباؤ (Maximum Pressure) کی بات کی جاتی تھی، اور اب اس کے نمائندے اعتماد سازی اور سوءتفاهمات دور کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
تبدیلی کیوں آئی؟
تحلیل کے مطابق، امریکہ میں داخلی اقتصادی مسائل اور عوامی بے چینی نے ٹرمپ کو مجبور کیا ہے کہ وہ ایران سے براہِ راست تصادم سے گریز کرے اور ایک وقتی، نمایشی سفارتی کامیابی حاصل کرے۔ اس مقصد کے لیے اب مذاکرات اور پیغام رسانی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
امریکی خصوصی نمائندے استیو وٹکاف نے حالیہ بیان میں کہا کہ ٹرمپ نے ایران کو پیغام دیا ہے کہ باہمی احترام کی بنیاد پر بات چیت ممکن ہے، یہ موقف ماضی کے سخت گیر بیانات سے مکمل طور پر متضاد ہے، جیسا کہ مشیر قومی سلامتی مائیک والتز کا بیان کہ ہم ایران کے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ایران کا ردعمل اور موجودہ موقف
ایرانی قیادت اب پہلے کی طرح جذباتی انداز میں مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیں،آیت اللہ سید علی خامنہای نے اشارہ دیا ہے کہ ایران نہ دھمکیوں سے ڈرتا ہے، نہ لالچ سے متاثر ہوتا ہے، اور نہ دباؤ میں آ کر مذاکرات قبول کرتا ہے۔
ایران اب خطے میں اپنے مضبوط اثر و رسوخ، روس اور چین جیسے اتحادیوں، اور بعض عرب ممالک کے ساتھ بڑھتے روابط کی وجہ سے زیادہ پراعتماد ہے۔ برجام کے تجربے کے بعد اب تہران جانتا ہے کہ واشنگٹن کے وعدوں پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کیا جا سکتا۔
داخلی اور خارجی دباؤ میں گھرا ٹرمپ
امریکی سیاستدان بھی اس تضاد پر بٹے ہوئے ہیں۔ ایک طرف لیندسی گراہم جیسے قدامت پسند رہنما کسی بھی قسم کے مذاکرات کو خطرناک پسپائی قرار دے رہے ہیں، تو دوسری جانب بعض تجزیہ کار سفارتی حل کو زیادہ مؤثر سمجھتے ہیں۔
اس کے علاوہ، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی ٹرمپ کے ایران کو پیغام بھیجنے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہم ایران کے ساتھ کسی نئے معاہدے پر بھروسا نہیں کر سکتے۔
کیا یہ صرف ایک چال ہے؟
تجزیہ واضح کرتا ہے کہ یہ تبدیلی ایک حقیقی اسٹریٹیجک تبدیلی نہیں بلکہ ایک وقتی سیاسی چال ہے، تاکہ ٹرمپ اپنی خارجہ پالیسی کو انتخابی مہم میں بطور کامیابی پیش کر سکے۔ چماق اور ہویج (Carrot and Stick) کی پرانی امریکی پالیسی ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے۔
لیکن 2025 کا ایران، 2015 کے ایران سے مختلف ہے؛ اس بار نہ صرف وہ مضبوط تر ہے بلکہ زیادہ ہوشیار بھی۔ ایران کسی عارضی اور نمائشی معاہدے کے دام میں پھنسنے کو تیار نہیں۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
ایران کا مسقط مذاکرات میں فوری پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ :امریکی اخبار
?️ 13 اپریل 2025 سچ خبریں:ایران نے عمان کے دارالحکومت مسقط میں امریکہ کے ساتھ
اپریل
غزہ میں ہر روز کتنے بچے شہید یا زخمی ہوتے ہیں؟
?️ 1 نومبر 2023سچ خبریں: اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) نے اعلان کیا
نومبر
اب اسرائیل کی امریکی معاشرے میں حمایت ختم
?️ 7 فروری 2024سچ خبریں:Yedioth Aharonot اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے
فروری
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، ٹرانسپورٹ کرایوں میں من مانی شروع
?️ 8 نومبر 2021اسلام آباد (سچ خبریں) حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں
نومبر
اسرائیل غزہ میں قیدیوں کی رہائی کیوں نہیں چاہتا ؟
?️ 9 مئی 2024سچ خبریں: تین صیہونی فوجی حکام ، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ
مئی
ہم امریکا کو افغانستان کیخلاف ہوائی اڈے نہیں دیں گے
?️ 26 جون 2021اسلام آباد (سچ خبریں) وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا
جون
ہر طالع آزما کو کہتا ہوں تم قادر نہیں، یہ ظلم کا نظام ہے، ملکی فلاح کے راستے سے ہٹ جاؤ، سلمان اکرم راجہ
?️ 24 اپریل 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم
اپریل
کیا ایران اور امریکہ کے درمیان فنی مذاکرات بھی غیرمباشرت ہوں گے؟
?️ 23 اپریل 2025 سچ خبریں: ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے فنی مذاکرات
اپریل