اسلام آباد {سچ خبریں}وزیراعظم عمران خان کی پے درپے شکستیں! ہفتے کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ! کیا اس ووٹ کی کوئی حقیقی معنویت ہے؟ کیا ریاستی ادارے غیر جانبدار ہوگئے ہیں؟ خصوصاً وہ ادارہ جو ریاستی خدائی کاماخذ ہے؟۔
ضمنی الیکشنوں میں مسلسل شکست، عدالت عظمیٰ میں پی ڈی ایم کے موقف کی پزیرائی اور سینیٹ الیکشن میں وزیراعظم عمران خان کے نمائندے حفیظ شیخ کی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں ہزیمت۔ تحریک انصاف کی حکومت کے پاس 180ووٹوں کی موجودگی کے باوجود حفیظ شیخ کے محض 164ووٹ۔ پرندوں کے رخ، ان کی ذہنی اور جسمانی اڑان کا بدلتی رتوں کو بھانپ لینا! کیا بے ضمیروں کی مملکت میں یہ محض خریدو فروخت کا کھیل تھا؟ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ہوں یا تحریک انصاف کسی کے نزدیک بدعنوانی اور ضمیروں کی خریدو فروخت کوئی غیر مناسب یا شرم وغیرت کی بات نہیں ہے۔ معاملہ بلدیہ ٹائون کی فیکٹری کا ہو، سرے محل کا ہو، پاناما لیکس کا ہو یا پھر عمران خان کی سلیکشن کا، یہاں ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے۔ یقینا معاملہ یہ نہیں ہے، بات کچھ اور ہے۔ اسٹیبلشمنٹ دو قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئی اور بس۔ دھاندلی، بدعنوانی، چوری چکاری، لوٹ کھسوٹ، الزام تراشی، کیا اس ملک میں اس سے کچھ فرق پڑتا ہے؟ یقینا نہیں۔
الیکشن کمیشن کے مزاج، رویے اور عمل کی تبدیلی میں اہل نظر کے لیے نشانیاںہی نشانیاںہیں۔ آزادانہ اور غیر معمولی فیصلے اور الیکشن کمیشن!! عجب ہے عالم عجب ہے منظر کہ سکتے میں ہے یہ چشم حیرت
یہ الیکشن کمیشن آف پا کستان ہی ہے جس نے عمران خان کی پانچ برس سے فارن فنڈنگ کیس میں فرار کی ہر کوشش پر آمین کہا ہے۔ فیصل وائوڈا کو سینیٹ کا الیکشن لڑنے کا موقع فراہم کیا۔ پرویز رشید کو پنجاب ہائوس کا بل ادا نہ کرنے پر نااہل قرار دیا، لیکن اب حکومت سے اتنا فاصلہ، اتنی بڑی خلیج! کہ عمران خان بلبلا اٹھے۔ تحریک انصاف کی حکومت سینیٹ میں کھلی رائے شماری چاہتی تھی لیکن الیکشن کمشنر نے عدالت عظمیٰ میں وہ سخت موقف اختیار کیا کہ عدالت عظمیٰ نے خفیہ رائے شماری کی تائید کے حق میں فیصلہ دیا۔ ڈسکہ میں تحریک انصاف کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ الیکشن کا حکم۔ الیکشن کمیشن کے فیصلوں میں کمیت اور کیفیت کے اس فرق میں اسٹیبلشمنٹ کے ماسوا کس کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ عمران خان کو اس کا ادراک تھا۔ وہ الیکشن کمیشن کے فیصلوں میں پنہاں پیغام و مفہوم کو سمجھ رہے تھے۔ سینیٹ الیکشن میں شکست پر انہیں غصہ الیکشن کمیشن پر نہیں کسی اور پر ہے۔ اتنی جرأت ان میں ہے نہیں کہ براہ راست اسٹیبلشمنٹ کو الزام دے سکیں۔
پی ڈی ایم کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے۔ گوجرانوالہ جلسے میں جب نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا تھا اسے سیاسی بے تدبیری سے تعبیر کیا گیا تھا۔ ان کی پیروی میں مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے باب میں سخت زبان استعمال کی اسے بھی سیاسی خودکشی کے مترادف قراردیاگیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی اس پر سخت نا پسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ لیکن جب پی ڈی ایم کے اس موقف کو وسیع پیمانے پر عوامی پزیرائی ملی تب منظر بدلنے لگے۔ ادارے بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ اس میں بڑا دخل عمران خان حکو مت کی نااہلی اور عدم کارکردگی کا بھی تھا۔
عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں تواتر سے دوکام کررہے ہیں۔ اپوزیشن والے سب چور ہیں، میں انہیں چھوڑوں گا نہیںکی تکرار۔ لیکن اپوزیشن پر سوائے جھوٹے مقدمات بنانے کے وہ کچھ بھی نہ کرسکے۔ اپوزیشن کو چور ڈاکو کہنے کی تکرار میں انہیں اپنے قریبی ساتھیوں کے فراڈ اور ڈاکے نظر نہیں آئے۔ ناراض میڈیا نے جس کا خوب چرچا کیا۔ خوشامدیوں کا ٹو لہ جس نے انہیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اس نے انہیں پتا ہی نہیں چلنے دیا کہ گورننس کا کیا براحال ہے۔ ملک کو سنبھا لنا تو کجا وہ اپنے ساتھیوں کو بھی نہ سنبھال پائے۔ خوشامدیوں کے غیر منتخب ٹولے کے سوا ان تک کسی کی رسائی نہیں ہے۔ اراکین اسمبلی تو ایک طرف ان کے پاس وزراء کے لیے بھی پانچ منٹ نہیں ہیں۔ سینیٹ الیکشن کے موقع پر انہیں پارٹی کی اندروں صورتحال اور ٹوٹ پھوٹ کا یقینا اندازہ ہوا ہوگا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ پنجاب جیسے صوبے کو انہوں نے عثمان بزدار جیسے کمزور آدمی کے سپرد کررکھا ہے۔
دوسرا کام جو ان کی حکومت نے لگاتار کیا ہے وہ مہنگائی میں اضافہ ہے۔ ان کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے باب میں کچھ بھی ڈلیور نہیں کرسکی۔ حکومت کرنے کا ان کے پاس ایک ہی طریقہ ہے ہر ہفتے دو ہفتے بعد پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، بجلی کے نرخوں میں تیزی، جس کے بعد قیمتیں کسی کے کنٹرول میں نہیں رہتیں۔ اشیاء صرف کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔ ذمے داروں کو سزا دینا تو کجا ان میں اتنی اہلیت بھی نہیں کہ ذمے داروں کا تعین بھی کرسکیں اور اگر تعین کرسکیں تو انہیں معمولی سزا بھی دے سکیں کیو نکہ وہ ذمے دار ان کے قریبی ساتھی ہی نکلتے ہیں۔ اس بے عملی کا نتیجہ ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے باب میں پورے ملک میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے لیکن خان صاحب اپنی ذات کے گنبد میں اسیر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پی ڈی ایم کے جلسوں میں عمران خان کے ساتھ ساتھ انہیں لانے والوں کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا تو عمران خان کے ساتھ ساتھ سلیکٹرز بھی عوامی غصے کی لپیٹ میں آگئے۔ یہ وہ صورتحال تھی جس سے اسٹیبلشمنٹ پریشان ہوگئی۔ اسے عمران خان کے ساتھ دینے اور ایک پیج پر ہونے کے موقف پر نظرثانی کرنے کی ضرورت کا احساس ہوا۔
آصف علی زرداری نے اس بدلتی صورتحال کا ادراک کیا۔ انہوں نے پی ڈی ایم کی اسٹیبلشمنٹ مخالف قیادت کو بھی بند گلی سے نکالا اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی رابطے استوار کیے۔ یہ زرداری صاحب کی بساط تھی جس پر آکر نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، مریم نواز اور پی ڈی ایم کے دیگر اکابرین نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے خاموشی اختیار کی اور ناراضی اور غصے کی گلے شکووں کی صورت تعبیر کی کہ یہ ہماری اپنی فوج ہے۔ دونوں طرف سے یہ ایک احسن قدم تھا یا نظریہ ضرورت؟ بہرحال یہ زرداری صاحب کی خفیہ رابطہ کاری کا نتیجہ تھا کہ سینیٹ الیکشن میں خان صاحب کو اپنے گندے کپڑے اکیلے خود دھونا پڑے۔ وہ تھے یا داتا دربار پر حاضری دیتی خاتون اول یا وہ بے اثر اجنبی چہرے جو خان صاحب کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ جن کے اسکرین پر آتے ہی لوگ ٹی وی بند کردیتے ہیں۔ بغیر تولے اور بغیر سمجھے بوجھے کیسے بولا جاتا ہے ان ترجمانوں پر ختم ہے۔
ماضی میں اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن نے جب بھی قریب آنے کے اشارے دیے عمران خان نے اپوزیشن قیادت کی پکڑ دھکڑ اور جھوٹے مقدمات سے ان کوششوں کو سبوتاژ کردیا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم کے درمیان کوئی ٹھوس ڈیل ہوئی ہے تو شاید اب عمران خان ایسا نہ کرسکیں۔ حمزہ شہباز کی ضمانت کو اس حوالے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ شہباز شریف بھی جلد ہی جیل سے باہر ہوں گے۔ بلاول بھٹو جس اعتماد کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کی بات کررہے ہیں، پنجاب میں مورچہ زن ہونے اور وہاں بھی عدم اعتماد کا عندیہ دے رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر خود وزیراعظم کی بدن بولی جوایک ہارے ہوئے شخص کی تمام علامات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان پر سے مکمل ہاتھ تو نہیں اٹھایا ہے لیکن فاصلہ ضرور اختیار کیا ہے۔ بیساکھیوں کے بل عمران حکومت اس فاصلے کی بھی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ظاہر تو ایسا ہی ہورہا ہے۔ دوری عالم کو بھی ملحد بنادیتی ہے۔ گزشتہ ستر برسوں سے پاکستان میں یہی کچھ ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ بطور ناکام ریاست ہم زمانے سے اپنا لوہا اسی طرح منواتے رہیں گے۔ سیاست دان، بیوروکریسی، مضبوط ومستحکم فوج سب اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔