یورپ اور اسرائیل کے درمیان خلیج مزید گہری ہو گئی۔ فلسطین کو تسلیم کرنے کی نئی لہر

ٹیرف

?️

سچ خبریں: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو تسلیم کرنے کے یورپی ممالک کے فیصلے نے نہ صرف تل ابیب پر سفارتی دباؤ بڑھا دیا ہے بلکہ مغرب میں سیاسی توازن میں تبدیلی کا اشارہ بھی دیا ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جو اسرائیلی حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے یا اسے مزید سخت ردعمل کی طرف لے جا سکتی ہے۔
اقوام متحدہ میں حالیہ پیش رفت اور یورپی ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی نئی لہر نے ایک بار پھر مسئلہ فلسطین کو عالمی سفارت کاری کے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہے۔
جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ ان کا ملک فلسطین کو تسلیم کرے گا، اس فیصلے کو دو ریاستی حل کی امید برقرار رکھنے اور اسے ختم ہونے سے روکنے کے لیے ایک ضروری قدم قرار دیا ہے۔
انہوں نے فرانسیسی سفارت خانے کو دوبارہ کھولنے کی شرائط کو جنگ بندی، داخلی اصلاحات اور قیدیوں کی رہائی قرار دیا۔ فرانس کے بعد، لکسمبرگ، مالٹا، بیلجیئم اور موناکو سمیت کئی دیگر یورپی ممالک، اقوام متحدہ کے تین چوتھائی سے زیادہ ممبران کی صف میں شامل ہوئے جنہوں نے پہلے فلسطین کو تسلیم کیا تھا۔
یہ عمل، جس میں برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ شامل ہوں گے، تل ابیب کی طرف یورپ کے نقطہ نظر میں تبدیلی اور اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کی واضح علامت ہے۔
پرچم
ان پیش رفتوں کو محض علامتی عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فلسطین کو تسلیم کرنے کی نئی لہر یورپ میں گہری سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کی عکاس ہے۔ وہ تبدیلیاں جو رائے عامہ کے اثر و رسوخ سے تشکیل پاتی ہیں اور حکومتوں کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
غزہ کی جنگ اور شہریوں کی ہلاکتوں کی تباہ کن تصاویر نے یورپی دارالحکومتوں میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کو جنم دیا ہے، جس سے ان کے رہنماؤں پر زیادہ فعال موقف اختیار کرنے کے لیے غیر معمولی دباؤ ڈالا گیا ہے۔
بہت سے یورپی سیاست دان اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کی یکطرفہ حمایت جاری رکھنے کی بھاری سیاسی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ کہ نقطہ نظر کی تبدیلی سے ان کی ملکی قانونی حیثیت کو فائدہ پہنچے گا۔
قانونی نقطہ نظر سے، یہ عمل بین الاقوامی میدان میں فلسطینیوں کی پوزیشن کو مضبوط کرنے میں بھی مدد کر سکتا ہے۔ جیسے جیسے زیادہ ممالک فلسطین کو تسلیم کرتے ہیں، بین الاقوامی اداروں میں اس کا قانونی اور سیاسی جواز بڑھتا جاتا ہے، اور بین الاقوامی عدالتوں میں اسرائیلی حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کا امکان مضبوط ہوتا ہے۔
اس عمل سے تل ابیب پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، صہیونی بستیوں کی توسیع اور عام شہریوں کے خلاف فوجی کارروائیوں سے متعلق الزامات کا جواب دینے کے لیے دباؤ بڑھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیلی حکومت خود کو ایسی پوزیشن میں پاتی ہے جہاں اسے نہ صرف سیاسی مذمت بلکہ قانونی اور اقتصادی خطرات کا بھی سامنا ہے۔
تاہم، اس عمل میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے، اور اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کی مکمل رکنیت کے لیے سلامتی کونسل کی منظوری درکار ہوتی ہے، اور امریکا اپنی ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے اس کو روکتا رہتا ہے۔ بعض یورپی ممالک نے جنگ بندی اور سنجیدہ مذاکرات کے آغاز جیسی شرائط پر بھی اپنی حمایت کو مشروط کیا ہے اور امکان ہے کہ تسلیم کرنے کا عمل مرحلہ وار اور بتدریج آگے بڑھے گا۔
اجلاس
دریں اثنا، اسرائیلی حکومت ان پیش رفتوں کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے، اور وزیر اعظم نیتن یاہو نے واضح طور پر کہا ہے کہ فلسطین کو یکے بعد دیگرے تسلیم کرنا ایک اسٹریٹجک خطرہ ہے۔
وہ اس عمل کو غزہ میں بستیوں کی توسیع یا یہاں تک کہ بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کے جواز کے طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اس طرح فلسطینی جسے سفارتی کامیابی سمجھتے ہیں وہ اسرائیلی حکومت کے بے مثال ردعمل کو بڑھانے اور بحران کو ایک نئے مرحلے تک لے جانے کا بہانہ بن سکتا ہے۔
اس حوالے سے امریکی ایلچی ٹام بارک کے اسکائی نیوز کو انٹرویو میں بیانات نے اس بحران میں ایک اور جہت کا اضافہ کر دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "امن ایک وہم ہے” اور حقیقی سیاسی معاہدے تک پہنچنے کے کسی بھی امکان کو مسترد کر دیا۔ ان الفاظ کی سفارتی فضا میں وسیع گونج تھی اور تجزیہ کاروں کے مطابق اس تنازع کے حل کے حوالے سے واشنگٹن کی گہری مایوسی کی علامت ہے۔
سینٹر فار مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے علاقائی مطالعات کے پروگرام کے ڈائریکٹر نبیل عطم نے ان بیانات کو ایک خطرناک پیش رفت قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ امریکی نقطہ نظر سے یہ بحران اب محض ایک سرحدی تنازعہ نہیں رہا جسے علاقے کے تبادلے سے حل کیا جا سکتا ہے، بلکہ یہ خودمختاری اور تسلط کے لیے جدوجہد کا منظر بن چکا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے نقطہ نظر سے کسی بھی مذاکراتی اور سفارتی اقدام کی کوئی امید تقریباً ناممکن ہے اور یہ خطہ طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا مرحلہ جس میں سیاسی حل سیکورٹی اور فوجی منظرناموں کو راستہ فراہم کرتے ہیں۔
ان تحفظات کے باوجود فلسطین کو تسلیم کرنے کی نئی لہر کی سیاسی اور نفسیاتی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں جہاں 2014 سے امن مذاکرات معطل تھے، ان فیصلوں نے ایک بار پھر عالمی برادری کی توجہ مسئلہ فلسطین کی طرف مبذول کرائی ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ اس بحران کو ہمیشہ کے لیے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جھنڈا
یہ پیش رفت تل ابیب کو ایک واضح پیغام دیتی ہے کہ موجودہ پالیسیاں اب لاگت کے بغیر نہیں رہیں اور بین الاقوامی دباؤ سنگین سیاسی اور اقتصادی رکاوٹوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، یورپ اور اسرائیلی حکومت کے درمیان اور یہاں تک کہ یورپ اور امریکہ کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج خطے کے حوالے سے مزید آزاد یورپی پالیسیوں کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
آخر میں، یورپی ممالک کی طرف سے فلسطین کو تسلیم کرنا محض نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کوئی علامتی اقدام نہیں ہے، بلکہ عالمی سیاسی توازن میں تبدیلی کا حصہ ہے۔ اگر یہ عمل مسلسل سفارتی دباؤ اور عوامی حمایت کے ساتھ ہوتا ہے، تو یہ آہستہ آہستہ اسرائیلی حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے اور سنجیدہ مذاکرات کی طرف واپسی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

بصورت دیگر، اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ پیش رفت امن کا راستہ کھولنے کے بجائے بحران کو مزید بڑھا دے گی اور خطے کو مزید کشیدہ مرحلے میں دھکیل دے گی۔ اس عمل کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ عالمی برادری اس لہر کو کس حد تک پابند پالیسیوں اور عملی اقدامات میں تبدیل کر سکتی ہے، اور کیا اہم کھلاڑی محض طاقت کی منطق سے آگے بڑھ کر منصفانہ حل کی طرف بڑھنے پر آمادہ ہوں گے۔

مشہور خبریں۔

ایک محاذ ایک قوم

?️ 16 مئی 2021سچ خبریں:شام کے وزیر خارجہ نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل

اسرائیل نے یمنیوں سے نمٹنے کے لیے امریکا سے مدد مانگی ہے

?️ 11 جولائی 2025سچ خبریں: عبرانی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے

یمن کے صوبہ شبوا میں متحدہ عرب امارات کو بھاری نقصان

?️ 8 جنوری 2022سچ خبریں:  شبوا میں ہونے والی حالیہ جھڑپوں میں زخمی ہونے والے

معاہدے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کی دوسری ملاقات

?️ 3 جون 2023سچ خبریں:حسین امیرعبداللہیان اور فیصل بن فرحان، جو کہ برکس فرینڈز سمٹ

مشرقی افغانستان میں زلزلے کے بعد بچوں کے بے گھر ہونے کا بحران

?️ 7 اکتوبر 2025سچ خبریں: انٹرنیشنل سیو دی چلڈرن فنڈ نے خبردار کیا ہے کہ

طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور سعودی ولی عہد

?️ 13 جنوری 2022سچ خبریں:سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اپنے اقتدار کو

غزہ پٹی میں 6 ہزار افراد لاپتہ، اندازے کے مطابق تعداد میں مزید اضافہ متوقع

?️ 22 اکتوبر 2025سچ خبریں: فلسطین میں لاپتہ افراد کے حوالے سے کام کرنے والے مرکز

ترکی کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے پر اردوگان کے داماد کا ردعمل

?️ 1 اپریل 2024سچ خبریں: اردوگان کے داماد نے ترکی کے آئندہ صدارتی انتخابات میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے