سچ خبریں:الجزائر نے اپنی تاریخ کے 132 سال فرانسیسی حکومت کے ہاتھوں استعمار، قتل و غارت اور لوٹ مار کے سائے میں گزارے ہیں، چند سال قبل استعمار کو "انسانیت کے خلاف جرم” قرار دیتے ہوئے اشاروں میں معافی مانگنے والے فرانسیسی صدر نے اپنے تازہ بیان میں الجزائر سے باضابطہ معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔
Le Poin ہفتہ وار اخبار نے حال ہی میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے، جس پر مغربی ممالک کے تسلط میں برسوں سے استعمار کے تجربے سے گزرنے والے افریقی ممالک میں بہت سی باتوں ہو رہی ہیں جن میں استعمار اور جرائم کی تاریک تاریخ کے ساتھ مغربی ممالک کا نام بھی آرہا ہے، لی پوئن کے رپورٹر اپنے اور فرانسیسی صدر کو "آزادی کے بیٹے” کہتے ہیں کیونکہ دونوں 1962 کی جنگ اور "ایوین” معاہدے کے بعد پیدا ہوئے ہیں،تاہم اس انٹرویو کے کچھ حصے افریقی ممالک کی خبروں میں سرفہرست رہے اور انتہائی متنازعہ بن گئے جن میں سے ایک صدر فرانس کا یہ کہنا کہ وہ اپنے ملک کی طرف سے الجزائر میں 132 سال کے استعمار کے لیے معافی نہیں مانگیں گے۔
واضح رہے کہ الجزائر پرفرانس کا قبضہ چارلس پنجم کے دور میں 1830 میں ایک سفارتی تنازعہ سے شروع ہوا اور کئی تاریخی واقعات کے تجربے کے ساتھ 1962 تک جاری رہا،اس طویل عرصے میں، الجزائر کی ثقافت ، تاریخ، فن اور ادب کو تباہ کرنے کے منظم اقدامات کے علاوہ قتل عام جیسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا گیا کہ بہت سے لوگ اسے "نسل کشی” کے زمرے میں درجہ بندی کرتے ہیں،1961 میں الجزائر میں تشدد کے خلاف احتجاج میں فرانسیسی فوج کو چھوڑنے والے جنرل پیرس ڈی لا بولارڈیرنے 1971 میں نوویل آبزرور میگزین کو دیے جانے والےایک انٹرویو میں کہا کہ فرانسیسی فوج کے پاس الجزائر میں لامحدود اختیارات تھے جنہیں انہوں نے ان اس ملک میں ہر طرح کے بین الاقوامی اصولوں ، معیارات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں استعمال کیا ، اس جنرل نے الجزائر پر فرانسیسی استعمار کے 132 سال کے نتائج کو ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ الجزائر میں تشدد کے وسیع پیمانے پر استعمال کا حتمی مقصد نہ صرف وحشیانہ اور ناقابل برداشت تشدد کی پالیسی کا نفاذ تھا، بلکہ اس کا حتمی ہدف ایک قوم کی حیثیت اور قدر کو جانوروں اور آدم خوروں کی حد تک نیچا دکھانا تھا،132 سالوں کے دوران ہمارے بیشتر فوجیوں اور سیاست دانوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ الجزائر کے لوگ قدیم انسانوں، وحشیوں یا بہتر الفاظ میں، ایسے جانوروں کی طرح ہیں جو مہذب اور انسانی بین الاقوامی معاشرے سے تعلق رکھنے کے لائق نہیں ہیں لہذا اس مخلوق کو زمین پر رہنے والے انسانوں کی فہرست سے نکال دیا جائے البتہ ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی۔
Olivier Le Cour Grandmaison نے بھی الجزائر میں فرانسیسی نوآبادیاتی پالیسی کا حوالہ دیا جس کے نتیجہ میں قتل عام، ملک بدری اور بڑے پیمانے پر جبری امیگریشن پالیسی کا نفاذ، قحط، فاقہ کشی اور مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ جیسی وجوہات کی وجہ سے پہلے سالوں میں اس سرزمین کی ایک تہائی آبادی کے ضائع ہو گئی، ایک اور گروہ جو استعمار کے دوران اور اس کے ختم ہونے کے بعد اپنی معمول کی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا، وہ گروہ تھا جسے حارکیوں کے نام سے جانا جاتا تھا، جنہوں نے فرانسیسی فوج کے ساتھ ملیشیا اور اضافی قوت کے طور پر تعاون کیا ، تاہم 19 مارچ 1962 عیسوی کو چارلس ڈیگل کی قیادت میں اس وقت کی حکومت کے حکم سے الجزائر کی سرزمین سے فرانسیسی فوج کے انخلاء کے بعد یہ الجزائر میں تنہا رہ گئے، انہیں فرانسیسی افواج کے جانے کے بعد ملک کا غدار سمجھا گیا، ان میں سے بہت سے لوگوں پر تشدد کیا گیا یا قتل عام کیا گیا یا الجزائر کی آزاد ریاست کی جیلوں میں بھیج دیا گیا، 18 مارچ 1962 کو اووین معاہدے کے بعد، جس کی وجہ سے فرانس اور الجزائر کے درمیان جنگ بندی ہوئی، تقریباً 55 سے 75 ہزار حاریکی الجزائر میں رہ گئےجبکہ تقریباً 60000 کو فرانس منتقل کیا گیا، اس وقت ان کے خاندانوں اور زندہ بچ جانے والوں کی تعداد 500000 تک پہنچ گئی ہے۔
اس انٹرویو میں میکرون کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرانسیسی استعمار کے 132 سالوں میں لاکھوں کسانوں کی ان کی زمینوں سے بے دخلی، 8 مئی 1945 کو "Stif” کے قتل عام کے دوران 40000 الجزائریوں کے قتل عام اور لاکھوں افراد کی ہلاکتوں کو بھلا دیا گیا ہے، 2020 میں نائیجیریا کے جریدے "ریپبلک” نے ایک کالم میں یہ سوال اٹھایا کہ افریقہ کو اپنے ماضی کی منصفانہ پہچان کے بغیر کس مستقبل سے لطف اندوز ہونے کا حق حاصل ہوگا؟” نائجیریا نے یہ سوال برطانیہ اور اس کے سابق استعمار کے بارے میں اٹھایا لیکن یہ مسئلہ نوآبادیاتی تاریخ والے تمام ممالک کے لیے کیا جا سکتا ہے، "جرنل ڈی لافریق” اخبار نے اس بارے میں لکھا کہ روانڈا کے نسل کشی کے معاملے میں اپنے ملک کی ذمہ داری قبول کرنے میں میکرون کے اقدام سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ وہ الجزائر سے بھی معافی مانگیں گے ،تاہم ان کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں آنے والی حالیہ گرمجوشی کے باوجود کم از کم مختصر مدت میں ان کے لیے الجزائر سے معافی مانگنا ممکن نہیں ہے، جبکہ الجزائر کی آزادی تک جاری رہنے والی 1962 کی خونریز جنگ میں فرانسیسی افواج نے پھانسی اور تشدد کے متعدد واقعات انجام دیے۔ یہ پوچھ کر کہ کیا معافی مانگنا فرانس کے لیے ممنوع سمجھا جاتا ہے، اس جریدےنے اس مسئلے کے جرمنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ جرمنی نے 1904 اور 1908 میں نمیبیا کی نسل کشی کے سلسلے میں، سرکاری طور پر ان واقعات کو آج کے نقطہ نظر کے مطابق "نسل کشی” قرار دیا اور اس وقت جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس نے کہا کہ جرمنی کی تاریخی اور اخلاقی ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نمیبیا اور متاثرین کی اولاد سے معافی مانگیں گے، مورخ بنجمن اسٹورا نے جب الجزائر میں فرانسیسی فوج کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے بارے میں اپنا بیانیہ دیا تو خود فیصلہ کیا کہ معافی کام نہیں آئے گی لیکن الجزائر کے مورخین کا خیال ہے کہ الجزائر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ 132 برسوں کی استعماریت اور سیٹیف کے قتل عام کے صرف ایک کیس کے لیے حقیقی معافی مانگے۔
شاید اسی لیے الجزائر کے صدر عبدالمجید تبون نے جولائی 2020 میں پیرس کو یہ درخواست پیش کی تھی، خاص طور پر جب سے ایمانوئل میکرون اور ان سے پہلے فرانسوا اولاند نے ہارکیوں سے معافی مانگی ، میکرون کے الفاظ اتنے پیچیدہ ہیں کہ کوئی اس کے بارے میں بالکل مختلف سمجھ سکتا ہے، جیسا کہ کچھ کا خیال ہے کہ اسے ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا، فرانس کے صدر نے کہا کہ معافی مانگنا میرا فرض نہیں ہے، یہ مسئلہ نہیں ہے؛ کیونکہ یہ لفظ روابط کو تباہ کر سکتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ کا کام حساب و کتاب نہیں ہے،اس کے برعکس مسئلہ یہ ہے کہ اس معاملے میں ایسے مسائل ہیں جن کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، غلط فہمی ہو سکتی، ایسی چیز جس پر فیصلہ کرنا ناممکن اور ناقابل معافی ہوسکتا ہے، فرانسیسی صدر نے جب الجزائر میں قتل عام، جرائم اور لوٹ مار کے لیے معافی مانگنے سے انکار کی وضاحت کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس ملک کے ساتھ "دوستانہ تعلقات” کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کیا ، یہاں تک کہ الجزائر کے وزیر اعظم عبدالمجید تبون کو2023 میں فرانس آنے کی دعوت دی،یاد رہے کہ گزشتہ موسم خزاں میں ایمانوئل میکرون نے 17 اکتوبر 1961 کی رات کو الجزائر میں فرانسیسی حکمرانی کے خلاف مظاہرین کے قتل عام کے متاثرین کی یاد میں شرکت کی، یہ پہلا موقع تھا جب کسی فرانسیسی صدر نے اس طرح کی تقریب میں شرکت کی،اپنے پیشروؤں کے برعکس انہوں نے الجزائر کی آزادی سے چند ماہ قبل اس ملک کے شہریوں کے قتل عام کو ناقابل معافی جرائم قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ فرانس اپنی تاریخ کو واضح سمجھتا ہے اور اپنی تسلیم شدہ ذمہ داریوں کو قبول کرتا ہے، ان کے اس بیان سے سرکاری طور پر معافی مانگنے کی امیدیں بڑھ گئی تھیں جیسا کہ الجزائر کے صدر کا مطالبہ ہے۔
اس تقریب کی 60 ویں سالگرہ کے موقع پر، میکرون نے پیرس کے مغربی مضافات میں بیزون پل کے قریب دریائے سین کے کنارے واقع جائے وقوعہ پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور پھر اس واقعے کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیا، گویا الجزائر کا مسئلہ فرانس کے اعلیٰ ترین سیاسی عہدیدار کے لیے ایک ایسا آلہ ہے کہ وہ ہر بار اپنے ساتھ ایک مخصوص سیاسی اسپیکٹرم کو بیان کے ساتھ لاتا ہے، حالانکہ یہ ملک کے سیاسی حالات کے مطابق متضاد ہے، تاہم جب تک پیرس سرکاری طور پر الجزائر سے اپنی ایک صدی سے زائد عرصے تک استعمار کے نقصان پر معافی نہیں مانگتا، اس مسئلے کو مختلف جماعتیں اور گروہ استعمال کر سکتے ہیں اور ایک سیاسی گروہ کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں اور دوسرے گروہ کو پسپا کر سکتے ہیں۔