سچ خبریں: BDS نے دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں رائے عامہ پر نمایاں اثر ڈالا ہے، افریقہ سے لے کر یورپ تک یہاں تک کہ صیہونی حکومت کے اصل حامی ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بھی BDS تل ابیب کے خلاف کردار ادا کر رہی ہے،اس تحریک کی نوعیت اور خصوصیات کا تجزیہ کرتے ہوئے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ BDS نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد سے متاثر ہوکر اپنی جدوجہد شروع کی،اس نے جو راستہ چنا وہ ایک غیر متشدد جدوجہد تھی، اس احتجاجی تحریک کی پہلی خصوصیت اس کی نرمی ہے۔
سابق صیہونی وزیر اعظم اور موجودہ وزیر جنگ نفتالی بینیٹ نے سیاسی میڈیا ٹور کے لیے امریکہ کا دورہ کیا اور اس سفر کا مقصد صیہونی حکومت کی پوزیشن کو مضبوط کرنا اور اسرائیلی حکومت کی مدد قرار دیا،انہوں نے ایکس میڈیا(سابق ٹویٹر) پر اپنے ذاتی صفحے پر لکھا کہ دنیا کی رائے عامہ اب ہماری طرف نہیں ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ TikTok پر فلسطین اور حماس کے حامی مواد کو اسرائیل کے حامی مواد سے 15 گنا زیادہ ویوز ملتے ہیں،یقیناً سوشل میڈیا کے علاوہ صہیونیوں سے بیزاری یورپ اور امریکہ کی سڑکوں پر بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
بعض حکومتوں کی رکاوٹوں اور فلسطین کے حق میں مارچ اور مظاہروں کے خلاف انتباہ کے باوجود، یورپی دارالحکومت اور یونیورسٹیاں اب بھی صہیونی جرائم کے خلاف مظاہروں کا مرکز ہیں،اس دوران ایک عوامی تحریک کے کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے،بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اور پابندیوں کی تحریک، جسے مختصراً BDS کہا جاتا ہے، صیہونی حکومت کے جرائم کے جواب میں 2005 میں تشکیل دی گئی تھی،رائے عامہ پر اثر انداز ہو کر یہ تحریک اسرائیل کو اس کے اقدامات کا جوابدہ ٹھہرانے اور قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کرنے پر مبنی معاشی اور ثقافتی دباؤ بڑھانے میں کامیاب رہی ہے۔
افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف نرم جدوجہد سے متاثر ہو کر یہ تحریک یونیورسٹیوں اور کئی ممالک کی رائے عامہ کے درمیان ابھری ہے،دو دہائیاں قبل شروع ہونے والی نرم جدوجہد اب بہت سے ممالک میں اپنی چھاپ چھوڑ چکی ہے،اگرچہ پہلے اسرائیل نے اس تحریک کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن اس تحریک نے اسرائیل کے بائیکاٹ اور پابندیوں کے ساتھ تل ابیب پر جو دباؤ ڈالا، اس کے بعد وہ حساس ہو گیا اور رائے عامہ کی نظروں میں اپنا امیج ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غزہ پر صیہونی حکومت کے حملے نے بی ڈی ایس تحریک کو مزید نقل و حرکت کے لیے موقع فراہم کیا اور ایک بار پھر اسرائیلیوں کے جرائم کے حوالے سے رائے عامہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
یورپی ممالک کے نوجوان فلسطینی حملے کو جائز سمجھتے ہیں
رائے عامہ کے جائزوں اور سوشل میڈیا میں ڈیٹا کے تجزیے کے نتائج خاص طور پر نئی نسل میں صیہونی حکومت اور غزہ میں اس کے جرائم کے خلاف ایک قسم کی نفرت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ مغربی ممالک (یورپ، امریکہ اور کینیڈا) میں سروے کی بنیاد پر رائے عامہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ اسرائیل کے خلاف ہے اور یہ مسئلہ خاص طور پر نوجوانوں میں زیادہ ہے،تقریباً 10 دن قبل ہارورڈ یونیورسٹی نے ایک سروے کے نتائج شائع کیے تھے،اس سروے کے مطابق 18 سے 24 سال کی عمر کے تقریباً 51 فیصد افراد اور 24 سے 35 سال کی عمر کے تقریباً 48 فیصد لوگوں نے طوفان الاقصیٰ کے آپریشن کو جائز سمجھا،یہ تناسب ان لوگوں میں مختلف تھا جو بڑی عمر کے تھے،اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں نوجوانوں کا رویہ بدل کر منفی ہو گیا ہے۔
بی ڈی ایس تحریک صیہونی حکومت کی نفرت کا سبب
2005 میں صیہونی حکومت کے جرائم کے جواب میں مغرب میں اسرائیل کے بائیکاٹ، عدم سرمایہ کاری اور پابندیوں کی تحریک قائم کی گئی،یہ تحریک جسے BDS کے نام سے جانا جاتا ہے، رائے عامہ کو متاثر کر کے صیہونی حکومت پر اقتصادی اور ثقافتی دباؤ بڑھانے میں کامیاب رہی،یہ تحریک غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف بہت سے مظاہروں کا سبب بھی بنی ہے،اسی کی وجہ سے امریکہ میں صیہونی حکومت کے خلاف رائے عامہ کا منفی رخ بھی بہت نمایاں ہوا ہے، شاید ہمیں ریپبلکنز میں یہ صورتحال کم نظر آتی ہے لیکن ڈیموکریٹس، خاص طور پر نوجوان ڈیموکریٹس میں یہ مسئلہ زیادہ عام ہے۔ اگرچہ بی ڈی ایس کی تحریک کو پہلے بہت سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا لیکن اب اس نے دنیا کی رائے عامہ پر جو اثرات مرتب کیے ہیں، اس سے اس نے اپنے تئیں اسرائیل کے حسد کو مزید تیز کر دیا ہے،اس وقت بہت سے سائنسی اور علمی حلقے اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں اور معاشرے کے فکری ڈھانچے کو اپنے ساتھ لانے میں کامیاب رہے ہیں،اس صورتحال میں اسرائیلی حکومت اسے پہلے سے زیادہ سنجیدہ سمجھتی ہے۔
افریقی نسل پرستی کے خلاف جدوجہد سے متاثر ایک تحریک
BDS نے دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں رائے عامہ پر نمایاں اثر ڈالا ہے،افریقہ سے لے کر یورپ تک اور یہاں تک کہ صیہونی حکومت کی اصل حامی ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بھی BDS تل ابیب کے خلاف کردار ادا کر رہی ہے،BDS نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد سے متاثر ہوکر اپنی جدوجہد شروع کی،اس نے جس راستے پر سفر کیا وہ ایک غیر متشدد جدوجہد تھی،اس احتجاجی تحریک کی پہلی خصوصیت اس کی نرمی ہے،یہ تحریک کسی بھی تشدد اور فوجی کاروائی سے گریز کرتی ہے،تحریک کا گاندھی کی فکر کی طرح ہے یعنی وہ ایسے احتجاج اور مظاہرے کی تلاش میں ہیں جو تشدد سے دور ہو،تحریک کے عنوان میں اس کے مقاصد کا ذکر کیا گیا ہے، ابتدائی مرحلے میں وہ اسرائیل کا بائیکاٹ کرنا چاہتے ہیں لیکن اب چاہتے ہیں کہ اس ملک میں کوئی سرمایہ کاری نہ ہو اور چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک بھی صیہونی حکومت پر پابندیاں لگائیں، ویسے تشدد کا استعمال نہ کرنے کی وجہ سے بھی وہ لوگوں میں مقبول ہیں۔
دوسری طرف پولیس اور فوج ان کے احتجاج پر اعتراض نہیں سکتی، اس تحریک کی ایک اور اہم خصوصیت اس کی غیر سرکاری نوعیت ہے،اس تحریک کو کسی حکومت کی حمایت حاصل نہیں ہے لہذا، ہر ملک میں اس کے ارکان اس ملک کے باشندے ہیں، بی ڈی ایس کو کسی ادارے یا حکومت کی طرف سے مالی امداد نہیں دی جاتی، اس لیے تحریک کے تمام اخراجات تحریک کے لوگ برداشت کرتے ہیں، اپنے مشترکہ مقصد کے باوجود ان کے پاس مرکزی نیٹ ورک اور قیادت نہیں ہے، یعنی وہ ہر برانچ میں اپنے انتظام کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں مثال کے طور پر جرمنی میں BDS کینیڈا اور امریکہ سے مختلف ہے،یہی وجہ ہے کہ یہ تحریک ماہرین تعلیم اور دانشوروں میں زیادہ مقبول ہے۔
مغربی میڈیا نے بھی اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے
تشدد سے دور جدوجہد اور احتجاج کا ایک ذریعہ میڈیا کا درست استعمال ہے۔ ایک ایسے دور میں جب میڈیا رائے عامہ کو متاثر کرنے اور یکجا کرنے کے لیے حکمران طاقت کے ہاتھوں میں ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے، ذرائع ابلاغ پر حکمرانی کرنے والے طاقت اور دولت کی مساوات میں خلل ڈالنا اس کی ایک ضرورت ہے،بی ڈی ایس تحریک کی میڈیا طاقت اور اس تحریک کا میڈیا بیس کسی بھی لحاظ سے اتنا بڑا نہیں جتنا دوسرے فریق کا ہے اگرچہ بہت سے ذرائع ابلاغ صیہونیوں کے ہاتھ میں ہیں، لیکن گزشتہ دہائی میں ہم نے ان مغربی ذرائع ابلاغ میں صیہونی حکومت کے موقف پر زیادہ تنقید دیکھی ہے،بے شک اس حکومت کے حق میں اب بھی کالم شائع ہوتے ہیں لیکن ماضی کے برعکس تنقید بھی ہوتی ہے، برطانوی گارڈین یا امریکی نیویارک ٹائمز جیسے مشہور اخبارات اور چینلز نے صیہونی حکومت کے موقف اور اقدامات پر تنقید کرنے والے مضامین شائع کیے ہیں یا اس حقیقت کے باوجود کہ CNN اسرائیل کے مفادات کے لیے خبریں شائع کرتا ہے، موجودہ جنگ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے وہاں موجود ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ زخمی اور شہید ہونے والی فلسطینی خواتین اور بچوں کی تصاویر بھی شامل ہیں۔
BDS کیا تلاش کر رہی ہے؟
اس تحریک نے اپنی سرگرمی کا آغاز صیہونی حکومت کے خلاف بائیکاٹ، سرمایہ کاری نہ کرنے اور پابندیوں کے مقصد سے کیا تھا،اس کا دائرہ صیہونی حکومت کی یونیورسٹیوں کے بائیکاٹ تک بھی پہنچ گیا ہے، BDS اپنے تصور کردہ مثالی وژن میں جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کی تحریک کے حوالے سے، فلسطین میں بھی فلسطینیوں کے پامال شدہ حقوق کے حصول کی کوشش کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو کم سے کم شہریت کے حقوق ملنے چاہیے اور انہیں ووٹ ڈالنے کا حق ملنا چاہیے، یعنی، یہ 2-ریاستی-2-قومی حل تجویز نہیں کرتی کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گی تو اس کے اندر پھوٹ پڑ جائے گی،یہ تحریک سیاسی حل تلاش کرنے کے بجائے صیہونی حکومت پر نقید اور چیلنج کرنا چاہتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلامی ممالک نے کن اسرائیلی برانڈز اور اشیاء کا بائیکاٹ کیا؟
بی ڈی ایس نے اس حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایسے اوزار بھی تیار کیے ہیں جو اس نے اپنے لیے بنائے ہوئے اہداف کے لیے بنائے ہیں؛ مثال کے طور پر اگر وہ دیکھیں گے کہ ایک امریکی کمپنی صیہونی حکومت کے قبضے کو آگے بڑھانے میں ملوث ہے تو وہ اس کمپنی کو مالی دباؤ میں ڈالنے کی کوشش کریں گے،اب بھی، BDS کی مرکزی سائٹ پر، کمپنیوں کی فہرست کو مسلسل اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے اور پابندیوں کے لیے شائع کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ان کمپنیوں میں سے ایک Cater Pilar ہے، یہ کمپنی وہ بلڈوزر بناتی ہے جو اسرائیل غزہ کے لوگوں کے خلاف اپنی جنگ میں استعمال کرتا ہے،بلٹ پروف بلڈوزر جس پر گولی اثر نہیں کرتی،ایک اور بڑی کمپنی HP ہے،یہ کمپنی اسرائیلی فوج کے لیے ٹیلی کمیونیکیشن ڈیوائسز بناتی ہے، بی ڈی ایس ان کمپنیوں کا بائیکاٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب اس تحریک کو شروع کرکے وہ تمام اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے جو ہم چاہتے ہیں،مثال کے طور پر صیہونی حکومت کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ کرنا۔
فلسطینیوں کو ووٹ کا حق کس طرح اسرائیل کی موقف کو خطرے میں ڈالتا ہے
اسرائیلی حکومت کے ناقدین جس چیز کی تلاش میں ہیں وہ زیادہ تر کم از کم شہریت کے حقوق اور فلسطینیوں کو ووٹ دینے کا حق ہے،آبادی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اگر یہ حق حاصل ہو گیا تو فلسطینیوں کی نمایاں آبادی اسرائیل کی پوزیشن کو خطرے میں ڈال دے گی،ہو سکتا ہے کہ بی ڈی ایس جس حل کی تلاش کر رہی ہے اس کا مقصد شہریت کے حقوق اور ووٹ کا حق ہو، لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی اور صیہونی کبھی مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطینیوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں دیں گے کیونکہ اس حق کے حصول کے بعد اسرائیل کی پوزیشن متزلزل ہو جائے گی،اس مسئلے کو ہم اعداد و شمار سے ثابت کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: میلبورن یونیورسٹی کی جانب سے صیہونی حکومت کا بائیکاٹ
اس وقت ہمارے پاس غزہ میں تقریباً 20 لاکھ اور مغربی کنارے میں تقریباً 30 لاکھ فلسطینی آباد ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ان دونوں علاقوں میں تقریباً 50 لاکھ 200 ہزار فلسطینی آباد ہیں،مزید 20 لاکھ فلسطینی ایسے ہیں جن کے پاس اسرائیلی پاسپورٹ ہیں، یعنی وہ اسرائیلی شہروں میں رہتے ہیں، ان تینوں گروہوں کی آبادی تقریباً سات ملین دو لاکھ افراد پر مشتمل ہے،اسرائیل کی یہودی آبادی کتنی ہے؟ سات کروڑ 100 ہزار ، کل ملا کر اسرائیل کی آبادی تقریباً 9.1 ملین ہے جس میں سے 20 لاکھ مسلمان ہیں یعنی اس وقت اگر مغربی کنارے اور غزہ میں رہنے والے لوگوں کو ووٹ کا حق دیا جائے تو مسلمانوں کی تعداد یا تو یہودیوں کے برابر ہے یا ان سے زیادہ،آبادی میں اضافے کی شرح کے مطابق، وہ اگلے 20 سالوں میں یہودیوں سے کہیں زیادہ ہوں گے جبکہ یقیناً ان اعدادوشمار میں اپنی سرزمین سے بے دخل کیے گئے فلسطینی شامل نہیں ہیں،اگرچہ بے گھر افراد کی ان کے گھروں کو واپسی کے لیے اقوام متحدہ میں سرکاری قرارداد موجود ہے، لیکن صیہونی حکومت بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر واپس جانے کی اجازت نہیں دیتی،تقریباً سات کروڑ لوگ ہیں،ان سات ملین کے بغیر بھی فلسطینیوں کو ووٹ کا حق دینا حکومت کے لیے ایک انتباہ ہوگا،اسرائیل کی صہیونی حکومتیں بی ڈی ایس کی کوشش اور مطالبات کو کبھی پورا نہیں کریں گی،اس وجہ سے تحریک دراصل صہیونی نسل پرستانہ نظام کو مکمل طور پر چیلنج کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
صیہونی حکومت نے بی ڈی ایس کے خطرے کو بھانپ لیا ہے
دو دہائیوں کی جدوجہد اب رنگ لائی ہے،جنریشن Z (عام زبانی میں زومرز کے نام سے جانا جاتا ہے) کے درمیان، یہاں تک کہ مغربی ممالک اور امریکہ میں بھی صیہونی حکومت سے بیزاری نمایاں طور پر بڑھی ہے،یہ صیہونی حکومت کے لیے ایک انتباہ سمجھا جاتا ہے ،اگرچہ بہت زیادہ لابنگ کے ساتھ، وہ کچھ امریکی ریاستوں میں BDS پر پابندی لگانے اور اسے مجرمانہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر یونیورسٹیوں میں مظاہرے ہوں تو کوئی بھی لوگوں کو گرفتار نہیں کرسکتا لیکن جب وہ کسی کمپنی کا بائیکاٹ کرتے ہیں یا صیہونی حکومت کو نشانہ بنانے کے لیے اس پر مالی دباؤ ڈالتے ہیں تو وہ اس کے ساتھ ریاستی قوانین کے مطابق نمٹتے ہیں جبکہ پولیس عام طور پر مظاہرین کے پاس جانے، جرمانے کرنے اور گرفتار کرنے سے گریز کرتی ہے کیونکہ ان کی گرفتاری میں مزید تنازعات شامل ہوں گے اور میڈیا کو زیادہ کوریج ملے گی۔