سچ خبریں: 54 سال قبل 21 اگست 1969 کو ایک صیہونی انتہا پسند نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی اور اسے نذر آتش کر دیا، ایسا واقعہ کہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس کے دوبارہ ہونے کا خطرہ موجود ہے۔
مسجد اقصیٰ دنیا میں مسلمانوں کے قبلہ اول کی حیثیت سے ہمیشہ عالم اسلام کی توجہ کا مرکز رہی ہے،مسجد اقصی ایک مقدس ترین اور زمین پر سب سے اہم اور متنازعہ مقام کی حیثیت سے پوری تاریخ میں ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ یہ مسجد مسلمانوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہے اور اسے ان کا قبلہ اول اور تیسرا مقدس مقام سمجھا جاتا ہے، نبی اکرمؐ کو اسراء کی رات اس مسجد میں منتقل کیا گیا اور انسانی تاریخ کا سب سے غیر معمولی اجتماع یہاں ہوا، اسراء کے واقعے میں تمام انبیاء نے مسجد اقصیٰ میں نبی اکرمؐ کے پیچھے نماز پڑھی۔ اسلام میں مسجد اقصیٰ کا نام مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد کوفہ کے ساتھ سب سے زیادہ فضیلت والی مساجد کے طور پر ذکر کیا گیا ہے نیز روایات میں آیا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنا دوسری مساجد میں ہزار مرتبہ نماز پڑھنے کے برابر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مسجد اقصیٰ پر تسلط سے لے کر قرآن کی مخالف تک
21 اگست 1969 کو کیا ہوا؟
21 اگست 1969 کی صبح 6:30 بجے مسجد الاقصی صیہونی حکومت کی جارحیت کا نشانہ بنی جس کا مقصد دنیا میں مسلمانوں کے قبلہ اول کو تباہ اور اس پر قبضہ کرنا نیز اس کی جگہ مبینہ طور پر ہیکل سلیمانی بنانا تھا، اس دن ایک انتہا پسند صہیونی آباد کار مائیکل ڈینس روہان نے مسجد الاقصی کے مشرقی حصے میں آگ لگا دی،اس اسلامی مقدس مقام کے خلاف اس مجرمانہ اقدام کے بعد آگ مسجد اقصیٰ کے دیگر حصوں میں پھیل گئی اور اس کے کئی صحن آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ اس آگ میں مسجد اقصیٰ کے تین ایوان بھی جل گئے اور اس کی چھت کے کچھ حصے بھی گر گئے،اس کے علاوہ اس میں موجود کئی عبادت گاہیں آگ سے مکمل تباہ ہو گئیں یا شدید نقصان پہنچا۔
صیہونی حکومت کا کردار
اس آگ کا رقبہ بالآخر 1500 مربع میٹر سے زیادہ تک پہنچ گیا جو مسجد اقصیٰ کے کل رقبے کا ایک تہائی ہے،قابل ذکر ہے کہ جب آگ شروع ہوئی اور اس کا دائرہ پھیل گیا تو صہیونی فوج نے جان بوجھ کر مسجد اقصیٰ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں پانی کی سپلائی منقطع کر دی اور آگ بجھانے کے لیے آنے والی فائر برگیڈ کی گاڑیوں کو کافی دیر تک روکے رکھا ،فلسطینیوں کی جانب سے ان واقعات کو دیکھنے کے بعد مقبوضہ بیت المقدس اور اس کے گردونواح کے مکین اس بڑے پیمانے پر آگ پر قابو پانے کے لیے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے،بالآخر صبح ساڑھے 6 بجے شروع ہونے والی یہ آگ دوپہر 12 بجے تک جاری رہی اور اگر فلسطینیوں کی بے لوث کوششوں سے آگ پر قابو پانے کے لیے بنیادی آلات استعمال نہ کیے جاتے تو الصخرہ مسجد کا گنبد بھی تباہ ہو جاتا اور مسجد اقصیٰ آگ کے شعلوں سے تباہ ہوجاتی۔
کیا قبلہ اول سے خطرہ ٹل گیا ہے؟
مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے والے مائیکل ڈینس روہن عیسائی صہیونیت کے پیروکاروں میں سے تھا جو اپنی مسخ شدہ تعلیمات کی بنیاد پر مسجد اقصیٰ کی جگہ مبینہ طور پر ہیئکل سلیمان کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں،اس واقعے کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کے کئی عشروں بعد بھی عیسائی صہیونی تحریک صیہونی حکومت کے اقدامات اور فلسطینیوں کے خلاف ان کے جرائم کی بھرپور حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران زیر بحث آیا اور کھل کر سامنے آیا،موجودہ صورتحال میں نیتن یاہو کی کابینہ میں مذہبی صہیونی دھاروں کے اثر و رسوخ اور طاقت کے بعد مسجد الاقصی کے خلاف خطرات بڑھ گئے ہیں جو دنیا میں مسلمانوں کے قبلہ اول کو تباہ کرنے کے خیال کی حمایت کرتے ہیں،حالیہ ہفتوں میں، بعض عبرانی ذرائع نے انتہاپسند صہیونیوں کے گروہوں کی جانب سے سرخ گایوں کے پانچ سروں کو آگ لگانے کی کوشش کی اطلاع دی۔ اس لیے یہ انتہا پسند گروہ اس کاروائی کو مسجد الاقصیٰ کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کرنے کے لیے تطہیر کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ اسی دوران نیتن یاہو کی سربراہی میں لیکوڈ پارٹی کے کنیسٹ (صیہونی حکومت کی پارلیمنٹ) کے ایک بااثر رکن نے مسجد اقصیٰ کو تقسیم کرنے اور القبلی مسجد (مسجد اقصیٰ کے ایک صحن ) میں مسلمانوں کو گھیرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔
وہ شعلے جو آج بھی بھڑک رہے ہیں!
مسجد اقصیٰ کو جلائے جانے کی 54ویں سالگرہ کے موقع پر ایک تقریر میں مسجد اقصیٰ کے خطیب شیخ اکرمہ صابری نے تاکید کی کہ مسجد اقصیٰ میں آگ کے شعلے 21 اگست 1969 سے بھڑک رہے ہیں اگرچہ ان کا انداز قدرے مختلف ہے،انہوں نے عالم اسلام کی طرف سے مسجد اقصیٰ کی حمایت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ صیہونیوں کے ہاتھوں مسلسل حملوں، کھدائیوں، فلسطینیوں کی اس سے بے دخلی اور پابندیوں کی پالیسیوں سے مسجد اقصیٰ میں آگ آج بھی جاری ہے۔
آخری بات
ان دنوں فلسطینی حلقوں نے بنیامین نیتن یاہو کی زیر قیادت مقبوضہ علاقوں میں انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کی طاقت اور Itamar Ben Gower اور Betsalel Smotrich (صہیونی داخلی سلامتی اور مالیات کے وزراء) جیسی انتہاپسند شخصیات کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ مسجد الاقصیٰ کو پھر سے جلانے کی باتیں کر رہے ہیں، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 1969 میں مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے پر مبنی جس شخص نے اس بے حرمتی کا ارتکاب کیا تھا اس کا تعلق انتہا پسند صہیونیوں کے خاندان سے ہے جو اب نیتن یاہو کی کابینہ میں نمایاں طور پر موجود ہیں۔
مسلمانوں کے قبلہ اول پر صیہونی وزیر کی حیثیت سے ایتمار بن گوئیر کے غیر معمولی حملے جن میں حالیہ مہینوں میں صیہونی آبادکاروں کی بڑی تعداد کے ساتھ اضافہ ہوا ہے اس مقدس مقام کی موجودہ خطرناک صورتحال کا مظہر ہے،خیال رہے کہ صیہونی حکومت کی ماضی کی کابینہ میں مسجد اقصیٰ پر صیہونی وزراء کے حملے مٹھی بھر ہوئے تھے لیکن حالیہ مہینوں میں مسلسل اس واقعے کے دہرائے جانے نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
مزید پڑھیں: مسجد اقصیٰ کی اہمیت اور تاریخی تفصیلات
اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی مقدس مقامات کے خلاف ایسے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے خلاف حفاظتی اقدامات، جو اقوام متحدہ یا اسلامی تعاون تنظیم جیسی بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کے فریم ورک کے اندر ہو سکتے ہیں، یقیناً اس کے مقابلے میں موثر نہیں ہوں گے لہٰذا توقع کی جاتی ہے کہ اسلامی ممالک اس معاملے میں زیادہ سنجیدگی سے عملی اقدامات کریں گے اس مثبت ہم آہنگی کے ساتھ جو حال ہی میں تہران اور ریاض کے تعلقات میں بہتری کے ساتھ علاقائی سطح پر قائم ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ سنہ 1969 میں مسجد الاقصی کو نذر آتش کرنے کے واقعے کے بعد اس وقت کی صیہونی حکومت کی وزیر اعظم گولڈا میر نے کہا تھا کہ 21 اگست 1969 کی رات جب مسجد الاقصی کو آگ لگائی گئی تو اس رات صبح تک مجھے نیند نہیں آئی، میں سوچ رہی تھی کہ اگلی صبح چاروں طرف سے عرب اسرائیل (مقبوضہ علاقوں) میں داخل ہوں گے لیکن اس صبح جب میں نے دیکھا کہ کچھ نہیں ہوا، تو میں سمجھ گئی کہ ہم فلسطینیوں کے خلاف کچھ بھی کرسکتے ہیں کیونکہ میں نے عربوں کو سوئی ہوئی قوم پایا۔