سچ خبریں: مشرق وسطیٰ میں جاری تنازع میں امریکہ اور اسرائیل کے مفادات مختصر اور طویل مدت میں مختلف ہیں اور یہ غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کو ختم کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
اسرائیل حماس کو ایک وجودی خطرے کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کا خاتمہ اس کا ایک اہم مقصد ہے جسے اگر وہ حاصل نہیں کر سکے گا تو اس کی بہت بڑی ناکام ہو گی،اگرچہ امریکہ نے حماس کو شکست دینے میں اسرائیل کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن بائیڈن کے لیے خطرہ حماس سے بھی آگے ہے،ان کی انتظامیہ اپنے شراکت داروں کو ایران، روس اور چین کے خلاف متحد رکھنے کی کوشش کر رہی ہے،دونوں ایک بڑی علاقائی جنگ سے بچنا چاہتے ہیں لیکن اسرائیل حماس کو شکست دینے کے لیے مزید خطرات مول لینے کو تیار ہے۔
جنگ بندی پر اختلاف
حماس کے 7 اکتوبر کے حملوں کے فوراً بعد بائیڈن نے تل ابیب کا دورہ کر کے اسرائیل کے لیے اپنی بھرپور حمایت ظاہر کی لیکن اس کے بعد کے دنوں میں، بائیڈن نے اپنی پارٹی کے ناقدین کے دباؤ میں، نیتن یاہو کے ساتھ فون کالز میں بارہا اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کو اپنی فوجی کاروائیاں بین الاقوامی انسانی قوانین کے مطابق کرنی چاہئیں، امریکہ غزہ کو انسانی امداد کی فراہمی اور قیدیوں کے محفوظ اخراج کے لیے دشمنی کے خاتمے کا بھی زور دے رہا ہے۔ تاہم، وہ مکمل جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں امریکہ اور اسرائیل دونوں کو منھ کی کھانا پڑی؟ پینٹاگون کے سابق مشیر کا انکشاف!
2024 کے صدارتی فنڈ ریزر کے دوران حاضرین میں سے ایک نے چیخ کر کہا کہ ایک ربی کی حیثیت سے میں آپ سے کہتا ہوں کہ ابھی جنگ بندی کا مطالبہ کریں،جس کے جواب میں بائیڈن نے کہا کہ میرے خیال میں لڑائی میں وقفے کی ضرورت ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا کہ انہوں نے جمعہ کو تل ابیب میں ہونے والی ایک میٹنگ میں اس معاملے پر اور نیتن یاہو اور اسرائیل کی جنگی کابینہ کے ساتھ عارضی جنگ بندی کے بارے میں بات چیت کی ہے، دباؤ کے جواب میں نیتن یاہو نے جمعے کو کہا کہ وہ ایسی عارضی جنگ بندی کی مخالفت کرتے ہیں جس میں حماس کی قید میں موجود اسرائیلی قیدیوں کی رہائی شامل نہ ہو، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے پہلے ہی دو امریکی قیدیوں کو رہا کرکے لڑائی روک دی تھی،منصوبے سے واقف ایک شخص کے مطابق اسرائیل نے اس جگہ پر فضائی حملے روکنے پر رضامندی ظاہر کی ہے جہاں قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل پر شہری ہلاکتوں کو کم کرنے اور حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بناتے ہوئے مزید ٹارگٹڈ حملے کرنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا ہے لیکن غزہ میں ہلاکتوں میں اضافہ اور انسانی بحران مزید سنگین ہونے کے باوجود اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں پناہ گزینوں کے سب سے بڑے کیمپ پر حملہ سمیت بڑے پیمانے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے حملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ کے اہلکار بڑے پیمانے پر ہلاکتوں سے ناخوش ہیں، وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ یہ اسرائیل کی جنگ ہے اور صرف وہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کس کو نشانہ بنانا ہے اور کس طرح آپریشن کرنا ہے، ہم صرف جنگ میں سیکھے ہوئے تجزبات ان تک منتقل کر سکتے ہیں۔
نیتن یاہو نے جمعے کو کہا کہ وہ غزہ میں اپنی فوجی کاروائی پوری طاقت کے ساتھ جاری رکھیں گے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایندھن کو غزہ کی پٹی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، جس کے بارے میں امریکہ اور انسانی گروپوں کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں اور پانی کی سہولیات کے لیے جنریٹر چلانے کی ضرورت ہے۔
غزہ کا غیر یقینی مستقبل
طویل مدت منصوبے میں بائیڈن تیزی سے دو ریاستی حل پر زور دے رہے ہیں اور بلنکن نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ بات چیت کی ہے کہ حماس کے خلاف فوجی کاروائی کے بعد اسرائیل اور غزہ کا مستقبل کیا ہے۔
بلنکن نے جمعے کو کہا کہ ہم پورے خطے میں اور اس سے باہر اپنے شراکت داروں کے ساتھ بات کر رہے ہیں کہ حماس کی شکست کے بعد کیا ہو گا،شاید بہترین اور واحد راستہ، جیسا کہ میں نے کہا دو ریاستی حل ہے۔
اسرائیلی نہیں جانتے کہ جنگ کا خاتمہ غزہ کے مستقبل کے لیے کیا معنی رکھتا ہے،اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ اس کا مقصد حماس کی فوج اور حکمرانی کی صلاحیتوں کو تباہ کرنا ہے لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کو غزہ پر مستقل طور پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے تاہم اسرائیل کی کچھ انتہائی دائیں بازو کی تحریکوں نے غزہ پر طویل مدتی قبضے یا غزہ کے لوگوں کو مصر کے صحرائے سینا میں دھکیلنے کی حمایت کی ہے جس کی یقیناً مصر کے رہنما مخالفت کرتے ہیں۔
اندرونی دباؤ کا نتیجہ
بائیڈن اور نیتن یاہو دونوں کو اپنے ممالک میں بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کا سامنا ہے اسی لیے یہ تنازعہ بغیر کسی واضح انجام کے جاری ہے،ابتدائی طور پر اسرائیل کی حمایت کرنے پر بائیڈن کو اب اپنی ہی پارٹی کے اراکین، خاص طور پر نوجوان، مسلم اور عرب امریکی ووٹرز کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے، جو غزہ میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے بارے میں فکر مند ہیں اور انتظامیہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کریں اور جنگ بندی کروائیں۔
حتیٰ کہ کانگریس کے ارکان، جنہوں نے اسرائیل کی حمایت اور فوجی امداد کی حمایت کی ہے، اس ہفتے کہا کہ وہ حماس کے خلاف اسرائیل کی فوجی کاروائیوں میں مزید برداشت نہیں کر سکتے ہیں،سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی مشرق وسطیٰ کی ذیلی کمیٹی میں بیٹھنے والے سینیٹر کرس مورفی نے جمعرات کو کہا کہ غزہ میں شہریوں کی اموات کی موجودہ شرح ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے،میں اسرائیل پر زور دیتا ہوں کہ وہ فوری طور پر اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کرے اور زیادہ باخبر اور متناسب جنگی مہم کی طرف رخ کرے۔
مزید پڑھیں: امریکہ اور اسرائیل غزہ کے ساتھ کیا کھیل کھلینے والے ہیں؟
ایک حالیہ گیلپ پول نے ظاہر کیا ہے کہ ڈیموکریٹس کے درمیان بائیڈن کی مقبولیت کی درجہ بندی پچھلے مہینے کے دوران 11 فیصد کمی سے 75 فیصد ہوگئی، جو ان کی صدارت کے بعد کی سب سے کم شرح ہے۔
دریں اثنا، کچھ ریپبلکن، بشمول 2024 کے ریپبلکن صدارتی امیدوار، بائیڈن کے غزہ میں تنازعہ کے خاتمے کے مطالبے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی حمایت کم کر رہے ہیں۔
نیتن یاہو، جو تنازعہ سے قبل عدالتی اصلاحات کے بل پر اپنی کوششوں کے باعث اسرائیلیوں میں غیر مقبول تھے، اب اس بات پر تنقید کا سامنا کر رہے ہیں کہ 7 اکتوبر کے حملے کیسے ہوئے اور ان کی ذمہ داری کیوں قبول نہیں کر رہے ہیں؟