سچ خبریں: پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک بار پھر مفاہمت، مذاکرات، اور ملکی مسائل کے حل کے لیے مل کر چلنے کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔
ملک کو دہشت گردی، عدم استحکام، معاشی اور سیاسی دباؤ جیسے مسائل کا سامنا ہے، اور وفاقی حکومت نے متعدد بار اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔
تاہم پی ٹی آئی نے اب تک حکومت کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنے پر اصرار کیا ہے، اور کہا ہے کہ مذاکرات حقیقی فیصلہ سازوں کے ساتھ ہونے چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے والوں کو کیا ملے گا؟شیخ رشید کی زبانی
بدھ کو پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دی اور کہا کہ ’آج اگر ان کے بانی (عمران خان) کو جیل میں کچھ مشکلات ہیں، آئیں بیٹھ کر بات کریں، اور معاملات کو طے کریں۔‘ جواب میں تحریک انصاف نے حکومت کو مذاکرات کے لیے شرائط کی ایک فہرست پیش کی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا:
بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی مذاکرات کی پیشکش کو دوبارہ دہرایا۔
انہوں نے کہا، ’میں تحریک انصاف اور عمران خان سے اپیل کرتا ہوں، آئیں بیٹھیں، ملک کی خوشحالی اور بہتری کے لیے، ملک کو آگے لے جانے کے لیے، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘
شہباز شریف نے کہا، ’آج اگر ان کے بانی (عمران خان) کو جیل میں کچھ مشکلات ہیں، آئیں بیٹھ کر بات کریں، اور معاملات کو طے کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’میں نے اپنی پہلی تقریر میں میثاق معیشت پر اتفاق کی درخواست کی تھی، لیکن اس پیشکش کو ٹھکرا دیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ انصاف کا پلڑا ہر وقت بھاری رہنا چاہیے، چاہے کوئی بھی سیاسی رہنما یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔
انہوں نے کہا، ’آج تلخیاں جس حد تک پہنچ گئی ہیں، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ آج 76 سال بعد ہم ایسی جگہ پر پہنچے ہیں کہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی جھجھکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی پارلیمنٹ میں تنقید ہوتی تھی، مخالفت میں باتیں ہوتی تھیں، مگر سیاست دان ایک دوسرے کے دکھ اور تکلیف میں شریک ہوتے تھے۔
اس موقع پر قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے وزیر اعظم کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر فوری ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی کی شرائط حکومت کے سامنے رکھ دیں۔
پی ٹی آئی کی مذاکرات کے لیے شرائط:
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے وزیر اعظم کی پیشکش پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پہلے کوئی عملی اقدام اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے عمران خان سمیت تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کیا جائے۔
عمر ایوب نے کہا، ’بات تب ہو گی جب میرا وزیراعظم عمران خان صاحب باہر آئیں گے، اور میرے 180 نشستوں پر میرے لوگ واپس آئیں گے۔‘
منگل کو وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کے بیان کو دیکھتے ہوئے حکومت مذاکرات کے معاملے پر تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ حکومت کی پوری کوشش ہو گی کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو جتنی دیر جیل میں رکھا جا سکتا ہے رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم آئین و قانون کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو اندر رکھیں گے، اور ان کا بیانیہ ملک کو غیر مستحکم کرنا ہے۔‘
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی جیل سے باہر آ جائیں گے تو طوفان نہیں آئے گا۔ ان کے مطابق ’بانی پی ٹی آئی جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے، ہم سیاسی اور جمہوری لوگ ہیں۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف کی مذاکرات کی دعوت اور ان کے مشیر کی بانی پی ٹی آئی کو جیل میں رکھنے کی بات میں تضاد ہے۔
پی ٹی آئی کا پہلا مطالبہ عمران خان کی رہائی اور ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جانا ہے۔ اس تمام صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے درمیان بات چیت کی راہ نکل سکتی ہے؟
بات چیت کی راہ نکل سکتی ہے؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نہ وزیر اعظم اپنے مذاکرات کی دعوت میں سنجیدہ ہیں اور نہ ہی تحریک انصاف مذاکرات کی حامی ہے۔
ان کے مطابق عمر ایوب نے نہ صرف عمران خان اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے بلکہ 125 نشستوں کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ ’وزیر اعظم تحریک انصاف کو یہ نشستیں دینے سے رہے، تو مذاکرات بھی محض ایک سیاسی نعرہ ہی ہیں۔‘
تجزیہ کار ضیغم خان نے کہا کہ آگے بڑھنے کا راستہ نو مئی کے واقعات کو قانونی یا سیاسی طور پر نمٹانا ہے، مگر ابھی دونوں آپشن پر کام آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔
ضیغم خان نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی سے زیادہ حکومت کے لیے مذاکرات کی طرف جانا اہم ہے، ورنہ ان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
ضیغم خان کے مطابق ایک اچھی حکومت سیاسی درجہ حرارت زیادہ نہ بڑھنے کی کوشش کرتی ہے، اور پی ٹی آئی سے مذاکرات کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے۔
ضیغم خان نے کہا کہ حکومت مذاکرات کی پیشکش کر رہی ہے، مگر وہ چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی مشکلات میں ہی رہے۔
ضیغم خان کے مطابق پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے ہی بات کرنے پر اصرار کرتی ہے، اور ان کا پورا بیانیہ ان جماعتوں کے رد پر کھڑا ہے۔
ضیغم خان کے مطابق اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات میں تضادات ہیں، مگر ماضی میں بھی مذاکرات اسٹیبلشمنٹ سے ہی ہوئے ہیں۔
ضیغم خان کے مطابق اس وقت اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کی حامی نہیں ہے، اور نو مئی کے واقعات میں قید کیے جانے والوں کو ڈھیل دینے اور نئے انتخابات کے لیے تیار نہیں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ جمہوریت میں ڈائیلاگ اور مکالمے سے چیزیں بہتر ہوتی ہیں، اور ریاست کے لیے بہتر راستہ نکالا جاتا ہے۔
قمر زمان کائرہ کے مطابق سیاسی اختلافات کی بنیاد پر دشمنی اور نفرت پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے، اور جو وسیع امور ہیں ان پر ڈائیلاگ کرنا چاہیے۔
قمر زمان کائرہ کے مطابق عمران خان نے پہلے مکالمے کو مسترد کیا تھا، مگر اب مذاکرات ضروری ہیں۔
حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے پر بضد ہے، اور کسی ڈائیلاگ کے دائرے میں آ ہی نہیں رہی ہے۔
عرفان صدیقی کے مطابق پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے خیرات مانگنے کے لیے دروازے پر بیٹھی ہوئی ہے۔
عرفان صدیقی کے مطابق تمام محب وطن جماعتیں ڈائیلاگ کی حامی ہیں، اور سب چاہتے ہیں کہ مل کر ایک راستہ نکالا جائے۔
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اگر ڈیڈلاک برقرار رہتا ہے تو یہ بدقسمتی کی بات ہے، اور جمہوری رویے کے تحت عمران خان کو بات چیت پر آمادہ کیا جانا چاہیے۔
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ افواج پاکستان سے مذاکرات مناسب تجویز نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کیا سوچ رہی ہے؟
پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما علی محمد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دین بھی یہی سکھاتا ہے کہ جب معاملات الجھتے ہیں تو مشورہ کرنا چاہیے۔
علی محمد خان نے کہا کہ مذاکرات ہونے چاہئیں، مگر حکومت کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، کیونکہ مینڈیٹ پر ہی جھگڑا ہے۔
علی محمد خان نے کہا کہ حکومت کی طرف سے بات چیت کی پیشکش کو مسترد نہیں کرنا چاہیے، بلکہ مذاکرات میں نکات رکھے جانے چاہئیں۔
علی محمد خان کے مطابق عمران خان نے ہمیشہ مذاکرات پر حامی بھری ہے، اور مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
علی محمد خان نے کہا کہ سیاسی جماعت کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے آئین میں اجازت نہیں ہے، اور اسٹیبلشمنٹ حکومت کا حصہ ہے۔
علی محمد خان نے تجویز دی کہ حکومت عملی اقدامات اٹھائے اور تحریک انصاف کے پاس عملی تجویز کے ساتھ آئے۔
علی محمد خان کے مطابق جب تک عمران خان کی رہائی اور مینڈیٹ کی واپسی عمل میں نہیں آتی، تب تک مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
علی محمد خان نے کہا کہ عمران خان کی رہائی ہم چاہتے ہیں، مگر اصولی مؤقف پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، اور سیاسی مقدمات واپس لیے جائیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروادی
علی محمد خان کے مطابق اس وقت سیاسی ڈائیلاگ کرنا سسٹم کی ضرورت ہے۔
علی محمد خان نے کہا کہ سیاسی معاملات کا سیاسی حل نہ نکلے تو پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ پھر کسی طالع آزما نے حالات کا فائدہ اٹھایا، اور اس کا نتیجہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔