سچ خبریں:ایک ممتاز عرب تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ آج استقامتی محاذ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور متحد ہے جبکہ قابض حکومت اور نیتن یاہو ذاتی طور پر اس محاذ کے رہنماؤں اور مجاہدین کے خلاف قاتلانہ حملے کی پالیسی کو فعال کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اس لیے کہ اس پالیسی نے ہمیشہ الٹا نتیجہ دیا ہے۔
مقبوضہ فلسطین کی اندرونی صورت حال کی سنگینی اور اس کے نتیجے میں صیہونیوں اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں اور مجاہدین کے درمیان جھڑپوں خاص طور پر صیہونی بستیوں میں استقامتی تحریک کے راکٹ حملوں کے بعد اسرائیلیوں کی تشویش اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ قابض حکومت فلسطینی رہنماؤں کے قتل پر مبنی اپنی کھوکھلی دھمکیوں کا سہارہ لیے رہی ہے،اس سلسلہ مین چند روز قبل انتہاپسند صیہونی کابینہ کے وزیر زراعت اور غاصب حکومت کی انٹیلی جنس اینڈ انٹرنل سکیورٹی آرگنائزیشن (شاباک) کے سابق سربراہ آوی دیختر نے سرکاری ٹی وی چینل12 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ کی پٹی میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رہنما یحییٰ السنوار، اسرائیل کے اہداف میں سے ایک ہیں۔
صہیونی میڈیا نے یہ بھی اطلاع دی کہ حماس کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ صالح العروری بھی اسرائیل کی دہشت گردی کی فہرست میں شامل ہیں کیونکہ وہ کئی خطرناک حملوں کی ڈیزائننگ کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے اسرائیلیوں کو بہت پریشان کیا ہے اور لبنانی حزب اللہ کے ساتھ بھی ان کے مضبوط تعلقات ہیں۔
اسی تناظر میں رائے الیوم اخبار کے ایڈیٹر اور ممتاز فلسطینی تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے اپنے نئے کالم میں لکھا ہے کہ تقریباً ستر سال قبل صیہونی حکومت کے مختلف لیڈاران نے فلسطینیوں کو قتل کرنے کی دھمکی دینے کے کا اسٹک اصول اپنایا تھا، جن کا مقصد فلسطینیوں میں خوف و ہراس پھیلانا اور انہیں قابض حکومت نیز صیہونی آباد کاروں کے خلاف کاروائی نہ کرنے کے لیے مجبور کرنا رہا ہے لیکن اس اصول کا ہمیشہ الٹا نتیجہ رہا ہے اور کبھی کامیاب نہیں ہوا،عطوان نے مزید کہا کہ صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو، جنہیں اس عارضی حکومت کی مختصر اور خاتمے کے قریب تاریخ میں اندرونی اور بیرونی غیر معمولی ناکامی اور مایوسی کا سامنا ہے، مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور جنوبی لبنان سے صیہونی مخالف کاروائیوں کی میں کی لہر کو روکنے کے لیے ایک بار پھر اس پالیسی کو فعال کرنے کے اصول کو استعمال کر رہے ہیں جبکہا انہوں نے رمضان کے مہینے میں مجبور ہو کر جنگ بندی کا سہارا لیا ہے،نیتن یاہو کے قریبی افراد کا کہنا ہے کہ چار افراد اسرائیل کی دہشت گردی کی فہرست میں شامل ہیں:
1۔ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ ۔
2۔ فلسطین کی جہاد اسلامی موومنٹ کے سکریٹری جنرل زیاد النخالہ۔
3۔ حماس کے پولیٹیکل بیورو کے نائب سربراہ صالح العروری۔
4۔ غزہ کی پٹی میں حماس کے رہنما یحییٰ السنوار جنہوں نے چند روز قبل قابض حکومت کے خلاف ایک شعلہ انگیز تقریر کی تھی۔
عطوان کا کہنا ہے کہ لیکن نیتن یاہو میں ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت نہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت ہر میدان میں استقامتی محاذ کے درمیان مکمل اتحاد پایا جاتا ہے لہذا اس تحریک کے قائدین کے خلاف کسی بھی کاروائی کا ایسا منہ توڑ جواب دیا جائے گا کہ ایک بڑا زلزلہ آجائے گا، جو صرف چند ایک میزائل حملوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ ایک جامع اور تباہ کن علاقائی جنگ میں بدل جائے گا اور فلسطینی سرزمین کو غاصبوں سے آزاد کرانے کا باعث بنے گا جس میں سب سے اہم الجلیل کا علاقہ ہے،جو چیز ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے وہ چند اہم حقائق ہیں:
– سید حسن نصر اللہ نے اپنی حالیہ تقاریر میں نیتن یاہو اور صیہونی حکومت نیز اس کے کرائے کے فوجیوں کی انٹیلی جنس اور جاسوسی خدمات کو لبنان میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے بارے میں خبردار کیا، چاہے وہ لبنانی ہو یا فلسطینی شخصیات یا کوئی اور قومیت، اور اس بات پر زور دیا کہ اس میدان میں کسی بھی قسم کی حرکت کا حزب اللہ کی جانب سے فیصلہ کن اور فوری ردعمل کیا جائے گا۔
– حماس اور جہاد اسلامی تحریک کے ترجمانوں نے فلسطینی رہنماؤں کے قتل کے بارے میں صیہونیوں کی دھمکیوں کے جواب میں واضح طور پر اس بات پر زور دیا کہ استقامتی گروہوں کی انگلیاں ٹریگر پر ہیں اور قابضین کی طرف سے کسی بھی اقدام کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
– جب 1995 میں اسرائیلی جاسوس سروس نے ممتاز فلسطینی انجینئر یحییٰ عیاش کو قتل کیا تو حماس تحریک نے دھمکی دی کہ وہ یحییٰ عیاش کے خون کا بدلہ لینے کے لیے چار آپریشن کرے گی اور یہ تمام کاروائیاں یکے بعد دیگرے تل ابیب ، خضیرہ اور مقبوضہ القدس کی گئیں جن کے نتیجے میں 50 صہیونی ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے،اس کے علاوہ حماس اور حزب اللہ کی راکٹ طاقت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
– جنوبی لبنان میں استقامتی نے اپنی خاموشی توڑ دی ہے اور مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں کے قریب میزائل اڈے قائم کر لیے ہیں جہاں حماس اور جہاد اسلامی کے تمام گروپ، عوامی فرنٹ آف فلسطین اور الاقصیٰ بریگیڈز حزب اللہ اور مشترکہ فوجی آپریشنز روم کی براہ راست نگرانی میں موجود ہیں۔
اس کالم میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ صیہونی غاصب حکومت اور امریکہ اس حکومت کے اہم حامی ہونے کے ناطے خطے میں پیش آنے والی خوفناک صورتحال کی تمام تفصیلات سے آگاہ ہیں،امریکہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں اس ماہ کے آخر سے پہلے سمجھوتہ کرنے والوں کی موجودگی کے ساتھ تیسری غدار سربراہی کانفرنس منعقد کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں اردن، مصر، فلسطینی اتھارٹی اور صیہونی وزیراعظم کے مشیر شرکت کریں گےجس کی سربراہی امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلکنکن کریں گے،عبدالباری عطوان نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دو ہفتے قبل سامنے آنے والی امریکہ کی خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے کبھی بھی قابض حکومت کے ساتھ اپنی سکیورٹی کوآرڈینیشن نہیں روکی ہے بلکہ حالیہ عرصے میں جنین، نابلس، قدس اور طولکرم میں مزاحمتی گروپوں کی کاروائیوں میں شدت آنے کے بعد یہ رابطہ اور بھی مضبوط ہوا ہے،اس لیے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے صیہونی حکومت کے ساتھ سکیورٹی کوآرڈینیشن کی معطلی کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ سراسر جھوٹ ہے اور یقیناً یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔
اس فلسطینی تجزیہ کار نے مزید کہا کہ نیتن یاہو کا رمضان کے مقدس مہینے کے اختتام تک فلسطینیوں کے خلاف جارحیت روکنے کا فیصلہ سخاوت اور وقار کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ یہ فیصلہ صیہونیوں اور خود نیتن یاہو کے تصادم کے قوانین میں ناگزیر تبدیلی اور غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، لبنان، یمن، عراق اور شام نیز مزاحمتی محاذوں کے اتحاد کی مضبوطی کے خوف کی وجہ سے کیا گیا، نیتن یاہو کبھی بھی قتل کی پالیسی کو فعال کرنے کی اپنی دھمکیوں پر عمل کرنے کی ہمت نہیں کر سکیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر اس سلسلے میں کوئی اقدام کیا گیا تو اسرائیل کے لیے جہنم کے دروازے کھل جائیں گے۔