🗓️
سچ خبریں: صہیونی آج بھی مغرب کے سجائے ہوئے ہولوکاسٹ کے دسترخوان پر بیٹھے ہوئے ہیں اوراپنے آپ کو مظلوم دکھا کر اپنے اعمال کا جواز پیش کر رہے ہیں۔
ان دنوں میدان میں جنگ اور تصادم کی ایک اہم جہت ہے اور وہ جنگ انفارمیشن اور میڈیا کے میدان میں ہے، جب محاذوں پر موجود افواج ٹرگر کھینچ رہی ہوتی ہیں تو یہ میڈیا ہی ہوتا ہے جو اپنے مشن کو نئے سرے سے متعین کرتا ہے، مشن کی یہ نئی تعریف ان کے ملک کے قومی مفادات یا جو ان ممالک کے سیاست دان اپنے میڈیا سے کہتے ہیں پر مبنی ایجنڈے سے پیدا ہوتی ، اگر آپ مختلف جنگوں کا جائزہ لیں تو آپ کو ان کے بارے میں چند عنوان ملیں گے،تنازع کے دونوں فریقوں سے وابستہ میڈیا کے موقف بالکل مختلف اور متضاد بیانیہ پیش کرتے ہیں اور غیر جانبدار میڈیا بھی اپنا اپنا موقف پیش کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ استقامت کے کمانڈروں کے قتل کا منصوبہ ناکام: صہیونی تجزیہ نگار
اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کوئی بھی میڈیا غیر جانبدار نہیں ہے اور یہ حقیقت میں کسی حد تک درست بھی ہے البتہ یہاں پر غیرجانبدار میڈیا سے مراد وہ میڈیا ہے جسے یا اس کے ملک کو اس جنگ کے نتائج سے کم سے کم فائدہ یا نقصان ہو گا، جو یقیناً بہت کم ہوتا ہے،تاہم میڈیا جنگوں کے بارے میں جو کچھ بیان کرتا ہے وہی تاریخ بناتا ہے اور تاریخ میں جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ اسی فیڈ یا مواد کی تیاری پر مبنی ہوتا ہے جو میدان جنگ میں تیار ہوتا ہے۔
محدود جنگ یا تنازعات کے ساتھ میڈیا کا ہمیشہ سے ایک خاص تعلق رہا ہے، بنیادی طور پر اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک صورت حال میں اہم خبروں کی قدر ہوتی ہے اور اس کے حفاظتی مضمرات کی وجہ سے اس سے عوامی دلچسپی ہوتی ہے لہذا تنازعہ میڈیا کا ایڈرینالائن ہے،صحافیوں کو اختلاف رائے کو تلاش کرنے کی تربیت دی جاتی ہے، ایسے اختلافات جو جنگ کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد ایک برطانوی مبصر نے کہا کہ جنگ نہ صرف خبروں کی فراہمی پیدا کرتی ہے بلکہ ان کی طلب بھی بڑھا دیتی ہے۔
خلیج فارس کی جنگ کے دوران، امریکہ کے پچیس بڑے اخبارات میں سے بیس کی تعداد میں اضافہ ہوا جبکہ CNN نیوزچینل کے سامعین میں بھی دس گنا اضافہ ہوا۔
کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن سیاست دان ہیرام جانسن جنہوں نے پہلی جنگ عظیم کے وسط سے لے کر 1945 تک تقریباً 30 سال تک سینیٹ میں خدمات انجام دیں، کا کہناہے کہ سچائی پہلی چیز ہے جسے جنگ میں نقصان پہنچتا ہے،ان کا انتقال 1945 میں اس دن ہو جس دن امریکہ نے ہیروشیما پر بمباری کی۔
تقریباً ایک سو سال قبل 1928 میں برطانوی قلمکار اور سیاست دان بیرن آرتھر پونسنبی کی کتاب ’’لائیز ان وار ٹائم‘‘ میں پروپیگنڈے کے قواعد لکھے گئے ۔
پونسنبی نے پہلی جنگ عظیم میں اپنے تجربات کو کتاب میں لکھا ،انہوں نے لکھا کہ جنگیں ہمیشہ چھپی اور قبول شدہ سچائیوں کے کے سمندر کے بارے میں فسفسطہ اور غلط بیانی کے گرد و غبار سے ہوتی ہیں ،یہ گرد و غبار خوف سے پیدا ہوتی ہے اور خوف کے ساتھ جاری رہتی ہے۔
آج ہم جانتے ہیں کہ جنگ سے پہلے بھی حق کی قربانی دی جاتی ہے، سیاسی جھوٹ، دھوکہ اور فریب جو جنگ سے پہلے تیار اور استعمال کیے جاتے ہیں جنگ کے میدان میں استعمال ہوتے ہیں اور تھنک ٹینکس، سیاسی افراد اور میڈیا، مغرب کی حکمرانی میں موجود عالمی کمیونیکیشن نیٹ ورک کی مدد سے رائے عامہ کو خوراک فراہم کرتے ہیں۔
یہ حکومتیں اپنی مقبولیت کے پیش نظر عام طور پر جنگ کے اوقات میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے شہریوں کو جنگ میں اپنے انصاف اور دشمن کی بدنیتی پر قائل کریں اور اگر سب نہیں تو زیادہ تر ذرائع ابلاغ اس شیطانی منصوبے میں حصہ لینے میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ میدان کے حالات منصفانہ صحافیوں کے لیے جنگ کی گرد و غبار کو ختم کرنا زیادہ مشکل بنا دیتے ہیں،کسی خاص جنگی مقام پر تعینات نمائندے کو ایک وسیع جغرافیائی علاقے سے مبہم رپورٹیں اکٹھی کرنا پڑتی ہیں۔
خلیج فارس کی جنگ کے سلسلے میں، جان سمسن، جو اس جنگ میں بی بی سی کے نامہ نگار تھے، نے اپنی پوزیشن کا موازنہ فٹ بال اسٹیڈیم میں کسی ایک ٹیم کے گیٹ کے قریب بیٹھے ہوئے شخص سے کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی بال میری طرف والے گیٹ کے قریب پہنچتا ہے تو میں اچھی طرح دیکھ سکتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے لیکن جب بار دوسری طرف جاتا ہے تو مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا میں صرف شائقئن کا شور سن کر سمجھتا ہوں کہ کچھ ہوا ہے۔
میڈیا اور غزہ میں جنگ کی گرد وغبار
کئی دہائیوں سے فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ مغربی مرکزی دھارے کا میڈیا اسرائیل کے حق میں نمایاں طور پر متعصب ہے، اسرائیل پر حماس کے اچانک حملے اور اس کے نتیجے میں غزہ پر اسرائیلی فوجی حملے نے اس بحث کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔
بہت سے میڈیا تجزیہ کار اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ حالیہ پیش رفت اور فلسطینی نقطہ نظر کی عکاسی کرنے والی آوازوں کے لیے جگہ میں اضافے کے باوجود بی بی سی جیسے بڑے ناموں میں اب بھی تعصب موجود ہے۔
فلسطینی مر رہے ہیں جبکہ اسرائیلی مارے جا رہے ہیں یہ لندن سے بی بی سی کا لہجہ ہے درحقیقت جب اس لہجے کو اس میڈیا کمپنی کے آفیشل لہجے کے طور پر قبول کیا جاتا ہے اور اس کے تمام نیٹ ورکس کو مختلف زبانوں میں اس طرح کا نوٹس بھیجا جاتا ہے تو ہدف بنائے جانے والے ممالک پر اس قسم کی معلومات کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے۔
سی این این ، فاکس نیوز، نیویارک ٹائمز،واشنگٹن پوسٹ جیسے ادارے جو سب کے سب یہودیوں سے متاثر ہیں ، ان میں سے کچھ کے مالک بھی یہودی ہیں، فلسطینی خبروں کو اسی سوچ کے ساتھ نشر کرتے ہیں۔
سی این این لکھتا ہے کہاسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان اسرائیل کی شمالی سرحدوں میں شدید لڑائی جاری ہے۔
سی این این اس بات کا تذکرہ کیے بغیر کہ حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اپنے متعدد ارکان کی شہادت کے بدلے میں مقبوضہ علاقوں میں راکٹ داغے ہیں، اسرائیل کی شمالی سرحدوں کی طرف اشارہ کرتا ہے تاکہ ناظرین کے ذہن کو شمال سے حملے کی طرف موڑ سکے۔ جب کہ اگر پیشہ ورانہ اصولوں کی بنیاد پر خبر نشر کی جائے تو لبنان کی جنوبی سرحدوں کا ذکر کرنا چاہیے، جن پر اسرائیل نے حملہ کیا ہے، اس طرح یہ چینل اسرائیل کو ایک فریق کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس پر حملہ کیا گیا ہے جب کہ لبنان کی جنوبی سرحدوں میں کشیدگی کا آغاز کرنے والی قابض حکومت کی فوج تھی۔
اسرائیلی فوج کے کمانڈر کے اس بیان کہ حماس نے اسرائیلی بچوں کے سر قلم کیے ہیں، پرسوشل میڈیا میں فوری طور پر بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آیا ہے لیکن بدقسمتی سے اکثر اوقات حقیقت وہ نہیں ہے جو کیمرے کے لینس سے نظر آتی ہے۔
لاس اینجلس ٹائمز کے تفتیشی رپورٹر ایڈم المحرک حماس کے ہاتھوں اسرائیلی بچوں کے سر قلم کیے جانے کے ردعمل میں "X” پر ایک پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ حماس کے ہاتھوں اسرائیلی بچوں کے سر قلم کیے جانے کی خبر دینے کا واحد ذریعہ اسرائیلی فوج ہے، جو جھوٹ پھیلانے اور غلط معلومات نشر کرنے میں مشہور طور ہے۔
وہ اپنے صحافی ساتھیوں کو خطاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صحافیو! یہی جنگ کی غبار ہے جہاں آپ کو ہر قسم کے دعوے نظر آئیں گے۔ غیر تصدیق شدہ اور سنسنی خیز معلومات کو فروغ نہ دیں۔
درحقیقت اسرائیلی بچوں کا سر قلم کرنا جعلی خبر تھی،یونین آف یورپین پروگرامز کے ایڈیٹر اس سلسلہ کی حقیقت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلاو، صحافی اسے دہراتے رہیں اور اس کی رپورٹیں تیار کرتے رہیں جب کافی نشر ہو جائے تو مسترد کر دو!
کہا جا سکتا ہے کہ اسی بنیاد پر اسرائیل نے بعد میں تردید کی اور اعلان کیا کہ اس کے پاس حماس کے ہاتھوں یہودی بچوں کے سر قلم کرنے کی کوئی دستاویز نہیں ہے!
مزید پڑھیں: الجزیرہ کے رپورٹر کو امریکی پیسوں میں قتل کیا گیا: امریکی قانون ساز
اسی سلسلے میں آیت اللہ خامنہ ای نے گذشتہ منگل کو مسلح افواج کی آفیسر یونیورسٹیوں کے طلباء کی مشترکہ گریجویشن تقریب میں حالیہ جنگ میں اسرائیل کی طرف سے عالمی رائے عامہ میں اپنے آپ کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب اس ظالم دشمن کو تھپڑ مارا گیا ہے تو اس نے مظلوم نمائی کی پالیسی شروع کر دی ہے نیز دوسرے بھی اس کی مدد کر رہے ہیں، اسکتباری دنیا کا میڈیا اس کی مدد کرتا ہے، یہ دکھانے کے لیے کہ وہ مظلوم ہے، یقیناً یہ بھی ایک غلط حساب کتاب ہے، جسے میں بعد میں بتاؤں گا،یہ مظلوم نمائی 100% جھوٹ ہے۔
جائز دفاع کے حق کے نام پر گمراہ کرنا
فلسطینی دہشت گردیکے خلاف اسرائیل کا اپنے دفاع کا حق ایک اور خطرناک تحریف ہے جس کے بارے میں مغربی میڈیا میں مسلسل بات کی جاتی ہے۔
8 اکتوبر2023 کو انگلینڈ کے چینل 4 کی رپورٹر کیتھی نیومین نے لیکوڈ پارٹی کے ایک اسرائیلی سیاست دان کے انٹرویو کے فوراً بعد انگلینڈ میں فلسطینی سفیر حسام زوملوٹ سے بات کی۔ نیومین نے زوملوٹ سے پہلا سوال کیا کہ کیا وہ حماس کے اقدامات کی مذمت کریں گے۔ الفتح کے ایلچی نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ آپ کو ہمیشہ مظلوم ، نوآبایادتی کا شکار اور محصور لوگوں پر الزام لگانے کے جنون رہتا ہے، جبکہ میں نے آپ کو لیکوڈ سیاست دان سے یہ سوال پوچھتے نہیں دیکھا کہ کیا وہ ایک پورے خاندان کے قتل کی مذمت کریں گے؟
نیومین نے جو سوال پوچھا وہ وہ ہے جو مغربی میڈیا میں اکثر فلسطینیوں سے پوچھا جاتا ہے، ماضی میں جب اسرائیلی فضائی حملوں میں سینکڑوں فلسطینی مارے گئے تو مغربی میڈیا نے حماس کے راکٹ فائر پر توجہ مرکوز کی جس میں ایک بھی صیہونی ہلاک نہیں ہوا۔
فلسطینیوں، حتیٰ کہ وہ جو حماس سے وابستہ نہیں ہیں، سے کہا جاتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر دوسرے فلسطینیوں پر عائد کیے جانے والے بے بنیاد جرائم کے الزامات کی تجمید کریں اور ان جرائم کی مذمت کریں جو فلسطینیوں نے انجام ہی نہیں دیے جب کہ ایک سیاست دان جو اسرائیل کی حکمران جماعت کا رکن ہے، اس سے اسرائیل کے جرائم کی مذمت کرنے کے لیے کبھی نہیں کہا جاتا ۔
اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں مغربی میڈیا کی ایک چال یہ ہے کہ وہ اس سیاق و سباق کو ہٹا دیتے ہیں جو تنازعہ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے،جب جارج آرویل مجموعی طور پر پروپیگنڈے پر بحث کرتے ہیں، تو وہ اس کا موازنہ ایک گھڑی سے کرتے ہیں جو چلنا شروع ہوتی ہے اور رک جاتی ہے، مغربی میڈیا میں بہت سے لوگوں کے لیے، حماس کا حملہ وہ لمحہ ہے جب گھڑی ٹک ٹک کرنا شروع کرتی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتا ہے اور صرف حماس کو صرف مخالف کے طور پر پیش کرتا ہے۔
حملے کے بعد گارڈین نے "حماس کی مجرمانہ بربریت” کی سرخی کا انتخاب کیا اور اکانومسٹ نے اپنی سرخیوں کے لیے "حماس، خون کی پیاسی” جیسے جملوں کا انتخاب کیا۔
یاد رہے کہ کہ مغربی میڈیا ایسی زبان کا استعمال اسرائیلی جرائم کو بیان کرنے کے لیے کبھی استعمال نہیں کرتا،یہ میڈیا کبھی بھی غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں ہزاروں شہریوں کی ہلاکتوں کو "خونریز اسرائیلی جارحیت” یا "خونریز اسرائیلی حملہ” سے تعبیر نہیں کرتا۔
مغربی میڈیا کی طرف سے پیش کردہ ٹیڑھی حرکت یہ ہے کہ جب اسرائیل غزہ میں گھروں، ہسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری کرتا ہے تو اسے "اپنے دفاع کا حق” حاصل ہے، لیکن فلسطینیوں کی طرف سے تشدد کا کوئی بھی عمل "دہشت گردی” ہے۔
"دہشت گرد” کا لفظ صرف میڈیا اور سیاست دان حماس کے لیے اس بہانے استعمال کرتے ہیں کہ حماس شہریوں کو نشانہ بناتی ہے،لیکن جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر غزہ کے شہریوں کو نشانہ بنایا ہے تو یہ الفاظ اسرائیل کے بارے میں کبھی استعمال نہیں ہوتے۔
آخری بات
صہیونی آج بھی مغرب کے سجائے ہوئے ہولوکاسٹ کے دسترخوان پر بیٹھے ہوئے ہیں اوراپنے آپ کو مظلوم دکھا کر اپنے اعمال کا جواز پیش کر رہے ہیں۔
صیہونی حکومت کی تشکیل اور اس کے بعد کے واقعات مشرق وسطیٰ کے لوگوں کے لیے ایک نیا واقعہ ہو سکتا ہے،لیکن یہ یورپ والوں کے لیے ایک مانوس عمل ہے کیوں کہ یورپی جو اسی طرح امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ کی زمینوں پر قابض تھے،زمینوں پر قبضہ، مقامی باشندوں کی نسل کشی، سخت قوانین کا نفاذ اور مقامی لوگوں کو ان کے پرانے طریقے سے بے دخل کرنا ان کے نقطہ نظر میں ایک قابل قبول اور جائز پالیسی ہے۔
اس لیے جب ہم مغرب سے اسلامی سرزمین کے قلب میں ایک جعلی ملک بنانے کی بات کرتے ہیں تو یہ تصور ان کے لیے اتنا عجیب نہیں ہے کیونکہ سماجی تعلیمات کی بنیاد پر وہ اپنے آپ کو ایسی قومیں تصور کرتے ہیں جو دنیا کے جنگل میں اپنے باغ کے لیے فیصلے کر سکتی ہیں ، اسی لیے انہوں نے اسرائیل کو جھوٹا ثابت کرنے اور اسے ایک بڑے جھوٹ یعنی ہولوکاسٹ سے پھیلانے کی کوشش کی نیز اپنے میڈیا کو اس بات کو قوموں کے کانوں تک پہنچانے کا کام سونپا،آج بھی اسی میڈیا کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ جھوٹ کے ساتھ اس قابض حکومت کی سیاسی زندگی کو بچانے میں مدد کریں ۔
مشہور خبریں۔
پارٹی رہنماؤں کے اجلاس میں انتظامی، قانونی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، شہباز شریف
🗓️ 23 ستمبر 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز
ستمبر
کشمیری کی آزادی کی صورت میں سید علی گیلانی کا خواب جلد پورا ہوگا: صدر مملکت
🗓️ 2 ستمبر 2021اسلام آباد (سچ خبریں) صدر مملکت عارف علوی کا کہنا ہے کہ
ستمبر
امریکہ اسلامی تحریکوں کے درمیان تعلقات کے خلاف ہے:حماس
🗓️ 23 اکتوبر 2022سچ خبریں:حماس کے ترجمان نے حماس کے وفد کے دورہ شام سے
اکتوبر
اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کےخلاف سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے پر جواب طلب
🗓️ 31 اگست 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین
اگست
غزہ میں ایک جامع اور پائیدار جنگ بندی کی ضرورت
🗓️ 30 نومبر 2023سچ خبریں:چینی وزیر خارجہ نے غزہ میں ایک جامع اور دیرپا جنگ
نومبر
پنجاب میں گورننس کا بحران سنگین ہوگیا ہے
🗓️ 15 نومبر 2021لاہور(سچ خبریں) پنجاب میں گورننس کا بحران سنگین ہوگیا ہے کیوں کہ
نومبر
نسل کشی پر دنیا کا ردعمل، لیکن ہونےکے بعد!
🗓️ 13 دسمبر 2024سچ خبریں: ارمینیا کے وزیر خارجہ ارارات مرزویان نے جمعرات کو ایروان
دسمبر
امریکہ کی نائن الیون کے بعد ہنگامی حالت میں مزید ایک سال کی توسیع
🗓️ 10 ستمبر 2021سچ خبریں:امریکی حکومت نے جمعرات کی شام 11 ستمبر 2001 کے حملوں
ستمبر