سچ خبریں:محمد بن سلمان نے مغربی ممالک میں اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیےجن کا اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
رائے الیوم انٹر ریجنل اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے منفی نتائج اب بھی سعودی عرب کے سیاسی، اقتصادی یہاں تک کہ تفریحی ماحول پر حاوی نظر آتے ہیں جس کی ایک مثا ل یہ ہے کہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی رابطہ کرنے سے انکار کر دیا جو خاشقجی کے قتل کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وہ کمپنیاں جنہوں نے خاشقجی کے قتل اور انسانی حقوق کے گروپوں کے ساتھ رابطوں کے بعد سعودی عرب کے ساتھ کاروبار نہ کرنے کا عہد کیا تھا، ان میں سے کچھ نے جان بوجھ کر اور خفیہ طور پر سعودی عرب کے ساتھ تجارت کی تاکہ ان کی ساکھ کو نقصان بھی نہ پہنچے اورسعودی پیسے بھی مل جائیں۔
درایں اثنامبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت اور اس ملک کی تفریحی تنظیم کے زیر اہتمام ہیپی نیس ایوارڈز کے میلے مین کچھ فنکاروں کی سعودی عرب میں داخلے سے ہچکچاہٹ کا اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ سعودی عرب کی ساکھ بگڑ چکی ہے،یادرہے کہ اس میلے کا اہتمام ریاض میں سعودی انٹرٹینمنٹ بورڈ کے سربراہ ترکی الشیخ نے کیا تھا جس میں کئی اعلیٰ بین الاقوامی فنکاروں نے شرکت نہیں کی ۔
یادرہے کہ فیسٹیول میں شرکت کے لیے اعلیٰ امریکی ستاروں اور زیادہ معاوضہ لینے والی فلموں کے مالکان کو راغب کرنے میں سعودی حکومت کی ناکامی کی وجہ انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب کا سیاہ ریکارڈ ہے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین نے سعودی عرب میں ہیپی نیس ایوارڈز کا انعقاد کرنے والی میڈیا کمپنی کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے جبکہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کمپنی نے سعودی عرب میں اپنا کام بند کرنے کا وعدہ کیا تھا، یہ انکشاف اس کمپنی کے لیے ایک بہت بڑا سکینڈل اور سعودی حکام کے لیے بڑی شرم کی بات ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ سعودی صحافی کے قتل کے صرف تین سال بعد وائس میڈیا کمپنی نے ثابت کردیا کہ وہ صرف پیسے کی پیچھے ہے ، اسی لیے وہ سعودی عرب کے ساتھ کاروبار نہ کرنے کے اپنے وعدے سے دستبردار ہو گئی ہے جبکہ 2020 میں اس کمپنی کو سعودی عرب میں العلا جشن کا اہتمام کرنے کے لیے $20 ملین ملے۔