سچ خبریں: مغربی ایشیا کی موجودہ صورتحال خاص طور پر الاقصیٰ طوفان کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس خطے کے بارے میں عظیم مشرق وسطی کا امریکی منظور نظر منصوبہ الٹا ہو گیا ہے اور اب یہ خطہ ڈی-امریکنائزیشن جیسی خصوصیات کے لیے جانا جاتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے روحانی پیشوا اور اسلامی انقلاب کے سپریم لیڈر نے بدھ کے روز اس ملک کے رضاکاروں کے ساتھ ملاقات میں عظیم مشرق وسطیٰ کے امریکی منصوبے کی ناکامی پر تاکید کرتے ہوئے نئے مشرق وسطیٰ کی خصوصیات بیان کیں ،تاہم اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کی نظر میں نئے مشرق وسطیٰ کی خصوصیات کیا تھیں اور آج اس خطے کی خصوصیات کیا ہیں؟
امریکی گریٹر مڈل ایسٹ پلان کی خصوصیات
مشرق وسطیٰ کے سلسلہ میں نیا امریکی منصوبہ اس خطے کا جغرافیہ بدلنے کی کوشش تھی،امریکیوں کے زیر غور جغرافیہ میں خطے کے کچھ ممالک کی تقسیم اور انہیں چھوٹے ممالک میں تبدیل کرنا اولین ترجیح اور ہدف تھا جن میں عراق اور شام جیسے ممالک سرفہرست تھے، بنیادی طور پر چھوٹے ممالک کی تشکیل مغربی ایشیائی خطے میں مغرب اور صیہونی حکومت کے مفادات کے مطابق ایک کامیاب تجربہ ہے،خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن چھوٹے ممالک اس کی کامیاب مثال ہیں جو امریکی فوجی اڈوں کی میزبانی اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا سب سے آسان ہدف ہیں یز غزہ کی حالیہ جنگ کے حوالے سے ان ممالک کے طرز عمل بھی امریکہ اور صیہونی حکومت کے لیے سازگار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا مشرق وسطیٰ کی صورتحال 7 اکتوبر سے پہلے جیسی ہو سکتی ہے؟ امریکی عہدیدار کی زبانی
لہٰذا امریکہ کے نقطہ نظر سے نیا مشرق وسطیٰ ایک ایسا خطہ ہے جہاں بڑے ممالک تقسیم ہوتے ہیں اور مغرب کی پالیسیوں کے مطابق ریاستوں کی تشکیل ہوتی ہے،اس منصوبے کا بنیادی نتیجہ مزاحمت کے محور کو کمزور کرنا اور مغربی ایشیائی خطے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کی پوزیشن کو مضبوط کرنا تھا،تاہم نہ صرف یہ امریکی منصوبہ ناکام ہوا بلکہ مغربی ایشیائی خطہ ایک الٹے عمل سے گزر رہا ہے، اس سلسلہ میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ جس چیز کو امریکی نئے مشرق وسطیٰ کہتے ہیں وہ آج کے مقابلے میں 180 درجے مختلف ہے،وہ حزب اللہ کو تباہ کرنا چاہتے تھے، 33 روزہ جنگ کے بعد حزب اللہ دس گنا مضبوط ہوئی،یہ بھی میں احتیاط سے کہہ رہا ہوں جبکہ حزب اللہ دس گنا سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔
وہ عراق کو ایک دم سے نگلنا چاہتے تھے لیکن ایسا نہیں کر سکے، ایسا نہیں ہوا،وہ شام پر قبضہ کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے داعش ، النصرہ فرنٹ اور اس طرح کے دوسرے گروہوں پر مبنی اپنی پراکسیوں کا استعمال کیا، تقریباً دس سال تک مسلسل ان کی حمایت کی ، پیسے دیے، سہولتیں دیں لیکن ناکام رہے اور نئے مشرقِ وسطیٰ کو جو وہ بنانا چاہتے تھے اس میں مکمل طور پر ناکام رہے۔
ایرانی پیشوا کے نقطہ نظر سے نئے مشرق وسطیٰ کی خصوصیات
گریٹر مڈل ایسٹ پلان کی ناکامی کے ساتھ، مغربی ایشیائی خطہ ایک ایسے عمل سے گزرا جو آج امریکہ کے زیر غور منصوبے اور اہداف کے متضاد خصوصیات کا حامل ہے، آیت اللہ خامنہ ای کے نقطہ نظر سے نئے مشرق وسطیٰ کی اہم خصوصیات یہ ہیں:
1۔ ڈی امریکنائزیشن
ایران کے اسلامی انقلاب کے سپریم لیڈر نے کہا کہ گریٹر مڈل ایسٹ کے منصوبے کا بنیادی ہدف اس خطے پر امریکی تسلط تھا، لیکن اب ہم اس خطے میں امریکی پوزیشن کے کمزور ہوتے ہوئے اور ڈی-امریکنائزیشن کا مشاہدہ کر رہے ہیں، انہوں نے ڈی-امریکنائزیشن کو اس طرح بیان کیا کہ ڈی-امریکنائزیشن کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے خطے پر امریکہ کے تسلط سے انکار۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ کے ساتھ سیاسی تعلقات منقطع ہو جائیں،ایسا نہیں ہے کہ ہم توقع یا تصور کریں کہ خطے کی حکومتیں امریکہ کے ساتھ سیاسی تعلقات منقطع کر دیں ،نہیں، ان کے امریکہ سمیت سب کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات ہیں لیکن امریکہ کا غلبہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے جس کی بہت سی نشانیاں ہیں،شام کے حوالے سے امریکی پالیسیاں ناکام ہوئیں اور اس ملک کی حکومت نہ صرف ختم نہیں ہوئی بلکہ متحارب ممالک نے بھی شام کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر لیے نیز شام میں امریکہ کے حریفوں یعنی روس اور اسلامی جمہوریہ ایران کا پلڑا بھاری ہے۔
عراق میں بھی نہ صرف یہ کہ امریکہ کی حامی حکومت نہیں بن سکی بلکہ عراقی مزاحمتی گروہ امریکہ کے خلاف جنگ کو ترجیح دیتے ہیں یہاں تک کہ امریکہ کو اس ملک میں اپنے اڈوں کی تعداد کم کرنا پڑی،یمن میں انصار اللہ اس ملک کے سیاسی منظر نامے کے اہم ترین اداکاروں میں سے ایک ہے جو مغربی ایشیائی خطے میں امریکی مداخلت کے واضح خلاف ہے اور یمن کی سرحدوں کے قریب امریکی اہداف کو نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرتی،اس کے علاوہ خطے کے بعض عرب ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ماضی کی طرح آگے نہیں بڑھ رہے ہیں اور یہ ممالک امریکہ پر سے اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں بلکہ دوسری طاقتوں بالخصوص چین کی طرف مائل ہو رہے ہیں جن میں سعودی عرب سر فہرست ہے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکی جریدے فارن پالیسی نے حال ہی میں سعودی عرب، صیہونی حکومت، مصر اور ترکی کو خطے میں امریکی پالیسیوں کے 4 ستونوں کے طور پر ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان ستونوں نے اپنی علاقائی پالیسیوں کے نفاذ میں امریکہ کے ساتھ تعاون بند کر دیا ہے، آیت اللہ خامنہ ای نے بھی اس سلسلے میں کہا کہ کچھ ممالک جو 100% امریکی پالیسی کے تابع تھے، امریکہ سے الگ ہونا شروع ہو گئے ہیں جیسا کہ آپ دیکھ اور سن رہے ہیں نیزآگے بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
2۔ مزاحمتی تحریک کی مضبوطی
ایرانی مذہبی پیشوا کے نقطہ نظر سے نئے مشرق وسطیٰ کی ایک اور خصوصیت خطے میں مزاحمتی تحریک کی مضبوطی ہے،کم از کم پچھلی صدی میں مغربی ایشیائی خطے کے لیے مغربی طاقتوں کی بنیادی حکمت عملی یہ تھی کہ ان طاقتوں کے مفادات کے عین مطابق دوغلے پن کے ذریعے عالم اسلام کو متحدہ نہ ہونے دیا جائے اس لیے عرب ، غیر عرب اور شیعہ ، سنی وغیرہ جیسے معاملات کو اٹھایا گیا، ان منصوبوں کو اس علاقے کے اندر ہی ذہانت سے ڈیزائن اور مضبوط کیا گیا تھا۔
اس کا بنیادی مقصد ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے ذریعے اپنی پالیسیوں اور مفادات کو آگے بڑھانا اور عالم اسلام کے اتحاد کو روکنا تھا، تاہم ایران کے اسلامی انقلاب سے انہیں اپنے جعلی اور مسلط کردہ دوغلے پن کے نفاذ کی بنیاد بھی فراہم وہتی دکھائی دی لیکن اسلامی انقلاب کبھی بھی عملی طور پر فرقہ واریت کی طرف نہیں بڑھا اور اس کا شمار خطے کے سنی گروہوں اور ممالک کے اہم ترین حامیوں میں ہوتا ہے،آج اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین کے اہم ترین حامیوں میں سے ایک ہے،ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی ان صورتوں میں سے ایک ہے جو جعلی دوغلے پن کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ مغربی تمام پالیسیاں اور دوغلے پن ناکام ہو گئے اور آج خطے میں واحد قوت مزاحمت ہے، انہوں نے اس سلسلہ میں کہا کہ تفرقہ ختم ہو گیا ہے اور اس کی جگہ خطے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے مزاحمتی تحریک کی شکل میں ایک اتحاد سامنے آیا ہے؛ مزاحمت کا مطلب ہے کہ امریکی جبر اور مداخلت کے سامنے نہ جھکنا ہے۔
3۔ طوفان الاقصیٰ اور مسئلہ فلسطین کا حل
بلاشبہ طوفان الاقصیٰ مغربی ایشیا کے خطے کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے، ایک ایسا واقعہ جو منظم اور تبدیلی کا باعث ہو سکتا ہے، ان میں سے ایک تبدیلی مسئلہ فلسطین کے علاقے میں ہے،صدی کی ڈیل بنا کر اور عرب ممالک اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لا کر امریکہ نے فلسطین کے مسئلے کو مغربی ایشیائی خطے اور اسلامی ممالک کے لیے ایک معمولی مسئلے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
مزید پڑھیں: امریکی طاقت رو بہ زوال
الاقصیٰ طوفان اس پالیسی کی ناکامی کے نتیجے میں ہوا اور مسئلہ فلسطین نہ صرف مغربی ایشیائی خطے بلکہ پوری دنیا کا پہلا مسئلہ بن گیا،جب سے طوفان الاقصیٰ شروع ہوا ہے، عالمی رائے عامہ فلسطین کی حمایت میں متحرک ہو گئی ہے اور القدس کی غاصب حکومت سے بیزار ہو گئی ہے،دریں اثنا طوفان الاقصیٰ نے ظاہر کیا کہ فلسطینی اپنا فیصلہ خود کرتے ہیں اور صدی کی ڈیل جیسے مسلط کردہ منصوبوں کو اپنے فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
نتیجہ
مغربی ایشیا کی موجودہ صورتحال خاص طور پر الاقصیٰ طوفان کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس خطے کے بارے میں عظیم مشرق وسطی کا امریکی منظور نظر منصوبہ الٹا ہو گیا ہے اور اب یہ خطہ ڈی-امریکنائزیشن جیسی خصوصیات کے لیے جانا جاتا ہے،طوفان الاقصیٰ کے نتیجے میں صدی کی ڈیل اور تعلقات کو معمول پر لانے سمیت امریکی منصوبوں کی ناکامی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ صیہونی حکومت نے اسی وقت غزہ کے خلاف دوبارہ جنگ شروع کر دی جب امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن مقبوضہ علاقوں میں موجود تھے۔