سچ خبریں: صیہونی حکومت غزہ کی پٹی میں جاری جرائم کے دنیا کے سامنے آنے سے اس قدر ڈرتی ہے کہ سختی اور شدید سنسر شپ کے بعد بھی صہیونی جنگی طیارے اس علاقہ میں صحافیوں اور میڈیا کے کارکنوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔
غزہ ان دنوں مکمل جنگ کا شکار ہے،ایک ایسی جنگ جس میں ایک طرف صیہونی فوج جدید ترین ہھتیار اور جنگی طیاروں نیز مہلک ترین بموں اور میزائلوں سے غزہ کی پٹی میں فلسطینی عام شہریوں اور مکینوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 18 روز قبل 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد غزہ کی پٹی پر بمباری کے دوران اب تک 6 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حقیقت کے قلب میں گولی
اس حوالے سے غزہ کی پٹی میں فلسطینی وزارت صحت نے بدھ کی صبح شائع ہونے والے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں 7 اکتوبر سے اب تک شہداء کی تعداد 6 ہزار 55 اور زخمیوں کی تعداد 15 ہزار 143 تک پہنچ گئی ہے۔
صحافیوں پر حملہ
صیہونی حکومت غزہ کی پٹی میں جاری جرائم کے دنیا کے سامنے آنے سے اس قدر ڈرتی ہے کہ سختی اور شدید سنسر شپ کے بعد بھی صہیونی جنگی طیارے اس علاقہ میں صحافیوں اور میڈیا کے کارکنوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔
غزہ میں شیخ رضوان کے محلے پر اسرائیلی جنگی طیاروں کے حالیہ کے حملے میں فلسطینی صحافی محمد عماد لبد شہید ہو گئے ۔ وہ الرسالہ میڈیا انسٹی ٹیوٹ کے رپورٹر تھے جن کی شہادت کے بعد طوفان الاقصیٰ جنگ کے آغاز سے غزہ میں شہید ہونے والے صحافیوں کی تعداد 20 ہو گئی۔
اسی دوران صیہونی افواج نے عربی زبان کے بعض میڈیا اور ٹیلی ویژن چینلز کو بند کرنے اور دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں گزشتہ ہفتے الجزیرہ ٹی وی چینل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اپنے دفتر کو بند کرنے کا اعلان کیا ۔
سوشل میڈیا میں سنسر شپ
قابضین نے غزہ اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں ان کے جرائم دنیا کے سامنے نہ آنے دینے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا میں بھی ان علاقوں کی خبروں کی کوریج اور نشریات کو بہت محدود کیا ہے۔
مزید پڑھیں: صیہونی تجزیہ نگار کا حماس کے بارے میں حیران کن انکشاف
ٹویٹر، انسٹاگرام اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم موجودہ حالات میں غزہ پر بمباری سے متعلق تصاویر اور ویڈیوز کی اشاعت کی اجازت نہیں دیتے ، ان کا کہنا ہے کہ فلسطین سے متعلق تصاویر کی اشاعت ان کی پالیسیوں کے خلاف ہے۔
یورپ میں فلسطین کی حمایت پر پابندی
یورپی ممالک میں فلسطین کی حمایت محدود بلکہ اس پر پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے، اس حوالے سے اناطولیہ خبررساں ایجنسی نے رپورٹ دی ہے کہ یورپی ممالک میں جہاں اسرائیل کے حامیوں کے مظاہروں پر کوئی پابندی نہیں ہے،وہیں فلسطین کی حمایت میں مظاہرے پولیس کی بھاری مداخلت اور گرفتاریوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔